سیاسیات کی روح سے دیکھا جائے تو عوامی مسائل سے متعلق اسمبلی فلور پر آواز بلند کرنے والے نمائندے صرف وہی ہوتے ہیں جو عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں آئیں۔ اسی طرح اقلیتی مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر آنے والے ارکان اسمبلی عوامی مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتیں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ارکان کو براہ راست منتخب کروانے کی راہ ہموار کر رہی ہیں؟ یہی سوال اس تحریر کا مرکزی خیال ہو گا۔
اقلیتی ووٹرز کی خانیوال میں موجود تعداد جاننے کے حوالے سے دی جانے والی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ضلعی الیکشن کمیشن خانیوال نے تحریری جواب دیا کہ مقامی سطح پر اقلیتی ووٹرز کی الگ سے کوئی لسٹ مرتب نہیں کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن پاکستان سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں 2022 میں ضلعی سطح پر اقلیتی ووٹرز کی مجموعی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں سے خواتین ووٹرز کی تعداد 18 لاکھ 4 ہزار 193 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہے۔ جبکہ پنجاب میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد کے حوالے سے قابل ذکر اضلاع میں لاہور میں 352،606، فیصل آباد میں 180،986، گوجرانوالہ میں 126،291 اور سیالکوٹ میں 110،906 اقلیتی ووٹ موجود ہیں۔ اسی طرح ضلع خانیوال میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 38 ہزار521 ہے جن میں سے مرد ووٹرز 20،885 جبکہ خواتین ووٹرز 17،636 ہیں جبکہ مجموعی اقلیتی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستان کے ان اضلاع میں اقلیتی ووٹرز کی موجود تعداد انتخابات میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے:
شانتی نگر خانیوال سے تعلق رکھنے والے سابق ممبر ضلع کونسل جیکب وزیر کے مطابق قومی دھارے کی سیاست میں اقلیتوں کی شمولیت تو بہت دور کی بات ہے، اقلیتوں کو ضلعی سطح پر سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی مرکزی یا بااثر عہدوں کے لیے کبھی بھی زیر غور نہیں لایا جاتا۔
انتخابی عمل سے منتخب شدہ جیکب وزیر اپنے سیاسی کیریئر کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب وہ یونین کونسل کے ناظم بنے تو مقامی سیاسی قیادت نے اپنے گروپ کے تمام ناظمین کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے لئے مدعو کیا جبکہ انہیں اس موقع پر یکسر نظر انداز کر دیا گیا جس کا انہوں نے مقامی قائدین سے گلہ بھی کیا مگر انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
وہ اقلیتی آبادی کے معاشی و سماجی حالات کے باعث سیاسی وابستگیوں، آپسی تفریق اور معاشرتی و مذہبی تنگ نظری کو اس نوعیت کی تفریق کی بنیادی وجوہات مانتے ہیں۔
جیکب وزیر سمجھتے ہیں کہ اقلیتی آبادی کے اعداد و شمار چھپانے کے ساتھ ساتھ اقلیتی ووٹ کو جان بوجھ کر حلقوں سے یونین کونسل کی سطح تک اس حد تک تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ان کی نمائندگی کسی بھی پراثر مقام تک نہیں پہنچ سکتی یا وہ اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے۔
اقلیتوں کی ملکی سطح پر نمائندگی کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں ہیں، جبکہ 266 جنرل نشستوں اور 60 خواتین کی نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کا ایوان 336 ارکان پر مشتمل ہو گا کیونکہ گذشتہ ماہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی 6 نشستوں میں کمی کی گئی ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں صوبہ سندھ میں 9، پنجاب میں 8، بلوچستان میں 3 جبکہ خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کی 4 نشستیں شامل ہیں۔
دسمبر 1970 کے عام انتخابات مشترکہ انتخابی نظام کے تحت ہوئے جس میں صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی اقلیتی امیدوار انتخاب نہ جیت سکا۔ اس کے بعد نومبر 1975 میں چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے اقلیتی برادری کے لئے قومی اسمبلی میں 6 نشستیں مختص کی گئیں۔ تاہم بعد میں صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے صدارتی فرمان نمبر 16 مجریہ 1985 کے تحت اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی میں 10 نشستیں مختص کیں۔
اٹھارھویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2010 میں غیر مسلموں کی ایوانِ بالا میں نمائندگی کے لیے شق شامل کی گئی تھی جس کے تحت ہر صوبے سے اقلیتی ارکان کی نمائندگی کے لیے ایک مخصوص نشست کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس ترمیم پر 25 اگست 2011 کو صدر آصف علی زرداری نے دستخط کئے تھے جبکہ ایوان زیریں میں مذہبی اقلیتوں کی 10 نشستیں مخصوص ہیں۔
جیکب وزیر کا ماننا ہے کہ اقلیتیں مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ سندھ بھر میں 22 لاکھ 14 ہزار اور پنجاب بھر میں ان کے مجموعی ووٹ 16 لاکھ 41 ہزار سے زائد ہیں۔ جبکہ کرسچیئن کمیونٹی کی زیادہ آبادی پنجاب میں ہے لیکن وہ صوبائی یا قومی نشست پر اسی صورت میں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں جب عوامی سطح پر انہیں لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کاموں کو سرانجام دینے کا موقع ملے اور عوامی سطح پر انہیں ووٹ دینے کی رائے فروغ پائے۔
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نعمان یونس کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی مساویانہ فراہمی کے لئے سب سے پہلے ان کی آبادی اور حلقہ جاتی بنیادوں پر ان کے ووٹ بینک کے اعداد و شمار حقیقی بنیادوں پر مرتب کئے جانے ضروری ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ اس کی بنیاد پر اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ ممکن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق ممبر پارلیمنٹ نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ سے پہلی بار 2018 کے جنرل الیکشنز میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 222 تھرپارکر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار مکیش کمار ملانی جنرل نشست پر منتخب ہوئے تھے جبکہ جامشورو سے گیان چند اسرانی ہماری پارٹی سے صوبائی اسمبلی کے لئے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔
سابق ممبر قومی اسمبلی شہاب الدین خان کا کہنا ہے کہ اقلیتی مخصوص نشستوں کو 10 سے بڑھا کر 15 کرنے کا ترمیمی بل ڈاکٹر رمیش کمار نے 2013 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس میں آئین کی مذکورہ شقوں میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی نے اس پر بحث کے بجائے اس کو ڈیفر کر دیا۔
خانیوال کے دوسرے قومی حلقے این اے 145 سے مخصوص نشست کے امیدوار شہزاد فرانسس کا کہنا ہے کہ وہ مخلوط معاشرے و مخلوط انتخابات کے حامی ہیں کیونکہ اگر یورپین ممالک کی پارلیمنٹ پر نظر دورائی جائے تو وہاں نمائندگان کو مذہب کے بجائے ان کی سیاسی و سماجی کارکردگی یا وژن کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ کیا جاتا ہے جس کے باعث مسلمان و مسیح دونوں ہی ایک دوسرے کو ووٹ بھی کرتے ہیں اور انہی ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندگان بلاتفریق سب کی خدمت کرتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے نمائندگان کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ لابنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ جن اضلاع میں مسیحی ووٹرز کثیر تعداد میں موجود ہیں وہاں مسیحی نمائندگان کو ٹکٹ دے کر عوامی خدمت کا موقع دیا جائے۔ اس سے عوامی سطح پر بھی آںے والے تین سے چار جمہوری ادوار میں یہ سوچ بیدار ہو گی کہ مخلوط معاشرے میں اقلیتوں کو بااثر بنانا معاشرے کی بہتری کے لئے کتنا سودمند ثابت ہوتا ہے۔
شہزاد فرانسس سمجھتے ہیں کہ عمومی طور پر مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے نمائندگان کا تعلق اپر پنجاب کے اضلاع سے ہوتا ہے تو ان کو دیے جانے والے فنڈز انہی اضلاع میں ہی استعمال ہو جاتے ہیں جن کو بڑھانے اور ان کے ثمرات جنوبی پنجاب کے اضلاع تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کے سبھی اضلاع میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 20 ہزار سے 70 ہزار تک افراد موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف اپنے منظور نظر لوگوں کو مخصوص نشستوں پر منتخب کر لیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ اقلیتوں کے پڑھے لکھے نوجوان بیرون و اندرون ملک اچھی ملازمتوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اقلیتوں کی جانب سے مین سٹریم سیاست میں اقلیتوں کے حوالے سے اچھی پالیسیز مرتب دینے کے لئے نا تو حکومتوں نے کوئی کردار ادا کیا نا ہی اقلیتی نمائندگی نے۔ جبکہ اقلیتوں کو بہتر مستقبل کے لئے سیاست میں آ کر اپنے حق کے لئے بہتر انداز میں آواز بلند کرنی ہو گی۔
اگر اقلیتوں کی نمائندگی کے حوالے سے سیاسی جماعتیں واقعتاً سنجیدہ ہیں تو انہیں مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں کی ضلعی تنظیموں کے مرکزی عہدوں پر تقرری کرنی ہو گی تاکہ وہ بااعتماد و با اثر طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکیں اور ان کی جانب سے لئے جانے والے اقدامات کے باعث بلا تفریق سارے شہری مستفید ہوں۔ اس طرح اقلیتی رہنماؤں کو قومی انتخابات میں ووٹ دیے جانے کے لئے ایک رائے ہموار ہو گی۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اقلیتی رہنماؤں کو ان اضلاع میں موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں پر اقلیتی ووٹ اکثریت کا حامل ہے تا کہ ان کے لئے مستقبل میں ایسا سازگار ماحول بنے جس سے وہ جنرل نشستوں پر منتخب ہو کر عوامی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔