زیرِنظر ان کی نئی کتاب ان کے بقول پہلی کتاب کا ہی تسلسل ہے۔ شجاع نواز پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اس لئے ان کی رسائی انتظامیہ اور فوج کے ان کونوں کھدروں تک ہے، جہاں دوسرے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے جاتے ہوئے پر جلتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ میں ایک نہایت اہم ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کی رسائی واشنگٹن میں حساس اداروں اور فیصلہ سازوں تک بھی ہے۔ اس لیے ان کے پاس معلومات کا ذخیرہ دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ ہے۔ ان کے ہر لکھے ہوئے لفظ کو ساری دنیا میں پالیسی ساز بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کی تحریروں کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی بیٹی آمنہ نے بھی اپنی محنت سے امریکی میڈیا میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وہ میرے فیس بک فرینڈ ہیں اور میں ان کی تحریروں کو بہت شوق اور اشتیاق سے پڑھتا ہوں کیونکہ ان تحریروں کو پڑھنے سے مجھے دنیا، پاکستان اور امریکہ کی پالیسیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ان کی حال ہی میں چھپنے والی کتاب ' دا بیٹل فار پاکستان' ہے، جس میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس کتاب پر بات کروں، میں اپنے استاد جناب پروفیسر انوار ایچ سید کے ایک مضمون اور ان کے اپنے ساتھ انٹرویو کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ Who Pays the Piper Calls the Tune پر میں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ پاکستان نے کئی موقعوں پر امریکہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا جن میں ایک ایٹم بم بنانا بھی ہے۔
پروفیسر انوار ایچ سید یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے استاد بھی تھے، انہوں میرے مؤقف پر کورا جواب دیا اور کہا کہ زمان صاحب اگر آپ کا باورچی یا ڈرائیور چاہے تو آپ کی زندگی اجیرن بنا سکتا ہے۔
شجاع نواز کی کتاب ' دا بیٹل فار پاکستان' The Battle For Pakistan: The Bitter US Friendship and Tough Neighbourhood کے تیرا باب ہیں۔
- The Revenge of Democracy?
- Friends or Frenenemies
- 2011 A Most Horrible Year!
- From Tora Bora to Pathan Gali
- Internal Battles
- Salala Anatomy of a failed alliance
- The Mismanagement the Civil-Military Relationship
- US Aid Leverage or Trap
- Mil to Mil Relations: Do More
- Standing in the Right Corner
- Transforming the Pakistan Army
- Pakistan’s Military Dilemma
- Choices: Important Milestones 2007-1
کتاب کے شروع میں جنہیں آپ اہم واقعات بھی کہہ سکتے ہیں کی تاریخیں دی ہیں۔ کتاب کے ابتدایہ Preface-Salvaging a Misalliance میں وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو ایک بیڈ شادی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور جاپانی محاورے میں ایک ایسی جوڑی بھی کہا جا سکتا ہے جو سوتی تو ایک بستر پر ہے مگر خواب الگ الگ دیکھتی ہے۔ یہ شادی ٹوٹنے جا رہی ہے مگر اسے دونوں پارٹیوں اور خطے کے مفادات کے لیے بچانا ضروری ہے۔ کیونکہ، پاکستان ایک ایسے علاقہ میں ہے جہاں یہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پچھلے 70 سالوں میں پاک-امریکہ تعلقات میں بہت اونچ نیچ دیکھنے میں آئی ہے۔ محبت کی پینگیں بھی چڑحھائی گئی اور توں تکار کی نوبت بھی آئی۔ پاکستان میں ابھی جمہوریت پوری طرح نہیں آئی، اور سویلین اور فوج کی کشمکش جاری ہے گو کہ ایک پیج کا نعرہ بھی لگایا جاتا ہے۔ شجاع نواز کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ اس کی کئی نسلوں نے فوج میں خدمات انجام دیں۔ وہ وردی کی عزت کرتے ہیں، ان کا تعلق جنگجو قبیلہ راجپوت جنجوعہ سے ہے، مگر وہ سویلین حکومت کے متبادل کے طور پر فوج کی حمائت نہیں کرتے۔
اس کتاب میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے اچھے اور خراب پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ایک وقت آیا کہ امریکیوں نے افغانستان سرحد میں داخل ہو کر پاکستانی فوجیوں کو مار دیا جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھی کارروائی کی۔ امریکہ نے جواباً پاکستان کی مالی امداد روک دی، جس کا اس نے افغانستان میں فوجی کارروائی میں مدد کرنے پر جنرل مشرف کے زمانے میں وعدہ کیا تھا۔
شجاع نواز کا کہنا ہے کہ امریکہ ہندوستان کے ساتھ دوستی کے بارے میں پاکستان کے جذبات اور تحفظات کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دیتا۔
شجاع نواز نے اپنی کتاب میں سوات میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور ملڑی ایکشن کا جائزہ بھی لیا ہے۔ انہوں نے میمو گیٹ، امریکی فوجیوں کے اسامہ بن لادن کے لیے ایبٹ آباد مشن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کے آئی ایس آئی کے سربراہ نے بھی حکومت کا تختہ الٹنے کے کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک افسر بالا نے جو آج کل امریکہ میں رہتے ہیں، امریکہ کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دیں۔
پاکستان کے وزیراعظم نے واشنگٹن میں اعلان کیا کہ پاکستان نے اسامہ کے معاملہ میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ ڈرون حملوں کا بھی عجیب پس منظر تھا، ایک طرف پاکستان حکومت کی اجازت سے یہ ہوتے تھے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان اس کی مذمت کرتی تھی۔ ان حملوں سے پاکستان میں امریکہ غیر مقبول ہو گیا۔
بمبئی دہشت گردی کے واقعہ کے بارے میں شجاع نواز نے پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ آئی آیس آئی کے چیف نے حقانی کو بتایا کہ یہ ہمارے آدمی تھے مگر مشن ہمارا نہیں تھا۔ گو وہ ذاتی طور پر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید پھلے پھولیں، مگر وہ امریکی کردار کے زبردست ناقد بھی ہیں۔
انہوں نے اس سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم امریکی دانشور Andrew Wilder کے جائزہ کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان صرف عسکریت کے بل بوتے پر خوشحال ملک نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے اسے اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت اور ہنر مندی اور سماجی بھلائی پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کی یہ حقیقت پر مبنی رائے ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے۔ یہ کام پاکستان کے سارے ہمسایوں کے ساتھ پُرامن تعلقات اور تجارت بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ شجاع نواز نے تین سابق آئی ایس آئی کے سربراہان کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیا ہے جن کے خیال میں دہشت گرد ویزہ لے کر نہیں آتے، اس لیے ویزہ میں آسانی ہونی چاہیے۔
ان کے جائزہ کے مطابق پاکستانی فوج میں آج بھی مذہب کا خاصہ اثر و رسوخ ہے۔ دو آئی ایس آئی کے سربراہ اور چند کور کمانڈر تبلیغی جماعت کے ممبر ہیں۔
میرے خیال میں شجاع نواز کی کتاب سیاست اور عالمی معاملات پر ایک بہت ہی اہم اضافہ ہے۔ خاص کر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں اس کتاب میں جتنی معلومات ملتی ہیں وہ اور کہیں نہیں ہیں۔ سو یہ سیاست، تاریخ اور انٹرنیشل آفیرز کے ہر طالبعلم کو پڑھنی چاہیے۔