پاکستان کی بقا کی جنگ: شجاع نواز کی کتاب جس نے تہلکہ مچا دیا

پاکستان کی بقا کی جنگ: شجاع نواز کی کتاب جس نے تہلکہ مچا دیا
کتاب کا نام: 

The Battle for Pakistan - The Bitter US Friendship and a Tough Neighborhood


مصنف: شجاع نواز

تبصرہ: عماد ظفر (ایشیا ٹائمز)، خالد احمد (نیوز ویک)

ترجمہ/ خلاصہ: محمد حارث

 

شجاع نواز ایک شہرت یافتہ مصنّف ہیں جنہوں نے Crossed Swords: Pakistan, Its Army, and the Wars Within اور Pakistan In the Danger Zone: A Tenuous US - Pakistan Relationship جیسی کتابیں تحریر کی ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار محقق ہیں، جنہوں نے دہائیوں پاکستان اور پاکستان سے باہر کام کیا ہے اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے بھائی ہیں۔ شجاع نواز کے پاکستان اور امریکہ کے طاقتور حلقوں میں مضبوط روابط ہیں۔

ان کی تازہ ترین کتاب The Battle for Pakistan: The Bitter US Friendship and a Tough Neighborhood ان کے مقتدر حلقوں میں تعلقات کی گواہی دیتی ہے، اور بلاشبہ ان کی انتہائی دلچسپ انداز میں تجزیہ اور حقائق بیان کرنے کی مہارت اتنی بہترین ہے کہ جب آپ کتاب پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ختم کیے بغیر واپس رکھنے کا دل نہیں چاہتا۔

اس نئی کتاب نے ابتدا ہی میں تنازع کھڑا کر دیا ہے کیونکہ اس کی رُونمائی کی تقریب کو پاکستانی حکّام کی جانب سے رکوا دیا گیا۔ صرف مکمّل کتاب پڑھنے کے بعد ہی کوئی یہ جان سکتا ہے کہ اس کتاب کی رُونمائی کی تقریبات کو پاکستان میں حکّام کی جانب سے کیوں روکا گیا، جیسا کہ نواز نے 2007 سے 2018 کے سیاسی حالات کے بارے میں کُھل کر لکھا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا بھی تجزیہ کیا ہے اور اس ملٹری کے نئے نظریے کا بھی جو بھارت پر مرکوز رہتے ہوئے ففتھ جنیریشن وار فیئر کے گرد گھومتا ہے۔



اس کتاب کی شروعات مرحوم بینظیر بھٹو کے 2007 میں امریکہ کے کیے گئے دورے سے ہوتی ہے۔ ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مُشرّف کا زوال اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کا عدلیہ کی بحالی میں کردار ایک معروف حقیقت ہے لیکن شجاع نواز نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

بینظیر کے راولپنڈی میں قتل سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹیم اور فلسفے میں تبدیلی کی تفصیلات بہت کھلی اور دلچسپ ہیں۔ مُشرّف کی باعزّت رخصتی اور اُس کے اکاؤنٹ میں (سعودی) عرب کے بادشاہ کی جانب سے امریکی ڈالرز جمع کرانا کتاب کے ابتدائی ابواب میں ایک دلچسپ موضوع ہے اور یقینی طور پر قارئین کو اس بات کی آگہی حاصل ہوگی کہ پاکستان میں اقتدار کی سیاست کیسے کام کرتی ہے۔

2007 سے 2013 تک کی پی پی پی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے نواز نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کیوں پارٹی کی کارکردگی مایوس کُن تھی اور کس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے آصف زرداری کو آزادی کے ساتھ حکومت نہیں کرنے دی اور آصف زرداری کی طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ نواز بتاتے ہیں کہ مشرف کے بعد زرداری امریکہ کے لئے اچھا متبادل تھے۔ زرداری نے ابتدا میں اپنے وزیرِ داخلہ رحمان ملک کی مدد سے، وزیرِ اعظم ہاؤس سے یہ نوٹس نکلوا کر کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (ISI) حکومت کی نگرانی میں کام کرے گی، آئی ایس آئی کا کردار گھٹانے کی کوشش کی لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس نوٹیفیکشن کو کینسل کروانے میں چند ہی گھنٹے لگے۔

نواز نے میموگیٹ سکینڈل کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ اُس کے بعد کیا ہوا۔ دباؤ میں چلنے والے پاکستانی میڈیا نے میمو گیٹ کی کہانی کا یکطرفہ رخ پیش کیا تھا، اس کتاب میں اس حوالے سے پائی جانے والی کئی قیاس آرائیوں کا جواب دیا گیا ہے۔



نواز کا پاکستانی سیاست کے متعلق سب سے چونکا دینے والا انکشاف سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے ہے۔ نواز کے مطابق اولسن کے پاس یہ معلومات تھیں کہ اُس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیر الاسلام 2014 میں عمران خان کی جانب سے دیے گئے دھرنے کے دوران نواز شریف کی حکومت گرانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے اُنہیں ایسا کرنے سے روکا۔ یہ انکشاف سب سے پہلے مسلم لیگی رہنما سینیٹر مُشاہداللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے جنرل ظہیر الاسلام کا ہاتھ تھا۔ مُشاہد اللہ کو اپنے اس انٹرویو کے بعد اپنی وزارت سے استعفا دینا پڑا تھا، کیونکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس بیان کو پسند نہیں کیا تھا۔

نواز نے اپنی کتاب میں ڈان لیکس کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ کیسے اس کی وجہ مسلم لیگ نواز اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی مزید بڑھی۔

نواز نے اپنی کتاب میں اُن واقعات کے بارے میں بھی بتایا ہے جو آگے جا کر ایشیا ٹائمز آن لائن کے پاکستان میں بیورو چیف سلیم شہزاد کے قتل کا باعث بنے۔ اس کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ سلیم نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں 2011 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بارے میں سرکاری مؤقف کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ’’القاعدہ نے پاکستان کو حملوں کی دھمکی دی تھی‘‘ کی سُرخی کے ساتھ لکھے گئے کالم میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2011 میں مہران نیول بیس کراچی پر ہونے والا حملہ طالبان یا اُن کے حمایتیوں نے نہیں بلکہ القاعدہ نے اُس وقت کروایا تھا جب پاکستانی حکّام اور القاعدہ کے درمیان القاعدہ کے حمایتیوں، جن کو پاکستانی حکام نے تلاش کر کے اپنی تحویل میں لے لیا تھا، کو چھوڑنے کی بات چیت ناکام ہو گئی تھی، جس کے بعد مہران بیس پر حملہ کیا گیا تھا۔

ایک سنسنی خیز انکشاف اس کتاب میں امریکہ کو اُسامہ بن لادن کا پتہ بتانے والے شخص کا ہے۔ شجاع نواز کے مطابق یہ کام ایک فوجی افسر اقبال سعید خان نے کیا تھا۔ اقبال سعید کو مبینہ طور پر جعلی کرنسی کے الزام کے تحت آرمی سے قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ سعید اسلام آباد میں ایک سکیورٹی فرم چلاتے تھے جس نے امریکہ کی ایجنسیوں کو لاجسٹک اور سرویلنس کی خدمات فراہم کی تھیں جن کے نتیجے میں امریکہ اُسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔ سعید کے اسلام آباد آفس کو بیس کیمپ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا تھا۔ سعید کو ایک اور فوجی افسر نے امریکہ کے لئے بھرتی کیا تھا۔ ایک اور ریٹائرڈ سینیئر آفیسر کے مطابق ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سعید کو اسامہ بن لادن کے پکڑنے کے آخری مراحل کے بارے میں خاموش رہنے کے سلسلے میں نوازا گیا ہو۔ اس کے علاوہ بھی ایک اور ریٹائرڈ افسر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اُس نے اُسامہ بن لادن کو پکڑنے کے سلسلے میں امریکہ کی مدد کی ہوگی لیکن ایسا کچھ بھی پاکستانی حکام کی طرف سے نہیں بتایا گیا۔ ایبٹ آباد کمیشن نے بظاہر سعید پر الزام نہیں عائد کیا۔ لیکن اس کے باوجود شجاع نواز نے اقبال سعید کے حوالے سے ایسا مواد اکٹھا کیا جس سے اقبال سعید کی شخصیت پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ سعید نے ایبٹ آباد آپریشن کے فوری بعد اپنی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہ کو چھوڑ دیا تھا جبکہ ان کے بیٹے کے ہائی سکول کے سالانہ امتحان سر پر تھے اور ان کی دوسری بیوی بھی کسی میڈیکل پروسیجر سے گزری تھی۔ اس گھر کو بعد میں اُن کی سکیورٹی فرم کے مینیجر نے فروخت کیا۔ اقبال سعید اب سان ڈیاگو کیلیفورنیا میں 2.4 ملین ڈالر کے گھر میں رہتے ہیں جو انہوں نے اپنے نام سے خریدا ہے۔ یہاں انہوں نے اپنی عرفیت بیلی رکھی ہوئی ہے اور مئی 2018 میں اُن کی اپنی بیوی کے ساتھ بی ایم ڈبلیو گاڑی میں تصاویر منظرِ عام پر آئیں جن میں گاڑی کی کیلیفورنیا کی نمبر پلیٹ واضح دیکھی جا سکتی ہے۔



شجاع کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ امریکہ اسامہ بن لادن کو ختم کرنے کے لئے ملٹری آپریشن کرنے جا رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ درحقیقت جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جنرل مائک ملن سے کہا تھا کہ امریکہ اُسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں انہیں بتا سکتا تھا اور پاکستان آرمی اس آپریشن کو دو گھنٹے میں دن کی روشنی میں کر سکتی تھی۔ شجاع نواز کی اس کتاب کے مطابق پاکستان آرمی کی ہائی کمانڈ پاکستان میں اُسامہ بِن لادن کی موجودگی سے ناواقف تھی اور اس آپریشن کے لئے اُس کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا تھا۔

نواز نے جنرل کیانی کی سوچ اور شخصیت پر تفصیلی بات چیت کی ہے اور مُشرّف کے بعد ادارے کا امیج بنانے میں اُن کے کردار کا ذکر کیا ہے۔ مصنّف نے اس کتاب میں نواز شریف کی اپنے پارٹی ممبران پر اعتماد نہ کرنے پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح نواز شریف نے اپنی ایک کچن کیبنٹ بنائی ہوئی تھی اور سارے فیصلے وہیں ہوا کرتے تھے۔

نواز نے اس کتاب میں ڈان لیکس کے بارے میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کتاب پاکستان آرمی کی جانب سے کیے گئے پاکستانی زمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف کی گئیں کارروائیوں اور کس طرح امریکہ پاکستانی ٹاپ براس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے کی تفصیل فراہم کرتی ہے۔ نواز نے اپنی کتاب میں پاکستان میں دہشت گرد عناصر کے خلاف منصوبہ بندی کا پورا کریڈٹ جنرل کیانی کو دیا ہے اور واضح طور پر لکھا ہے کہ اس منصوبہ بندی کا فائدہ جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضربِ عضب میں اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے آپریشن رد الفساد میں اُٹھایا۔

لیکن نواز نے پاکستان آرمی کے دفاعی اخراجات اور اس کی انڈیا کے گرد گھومنے والی پالیسی جو دفاعی بیانیہ کو تشکیل دیتی ہے پر تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ لکھتے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اُنہوں نے ملٹری پر میڈیا سنسرشپ کے حوال سے اور اُس کی رائے عامّہ کو بنانے کی صلاحیت پر بھی بہت تنقید کی ہے۔

نواز لکھتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کو بین القوامی میڈیا کا اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کے لئے اُنہوں نے کچھ اچھی تجاویز بھی دی ہیں کہ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے گُریز کرنا چاہیے اور اُس کی کمانڈ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے پاس واپس چلی جانا چاہیے۔



اُنہوں نے انتہائی محنت سے امریکہ کے کردار کے بارے میں لکھا ہے جو وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لئے ادا کر سکتا ہے اور کس طرح سے پاکستان اور بھارت کے درمیان حادثاتی طور پر ایٹمی جنگ کو چھڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ نواز کا مؤقف ہے کہ اگر بھارت پاکستان کی جانب رخ کی ہوئیں اپنی تین کور کو چین کی طرف لے جاتا ہے یا بھارت میں ہی اندر کی جانب لے جاتا ہے تو اس کا پاکستان کی جانب بہت اچھا پیغام جائے گا۔

The Battle for Pakistan صرف سیاسی انکشافات سے بھری کتاب نہیں ہے جو پاکستان کا مُقامی میڈیا اکثر شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا رہتا ہے۔ یہ کتاب پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات اور پاکستان کے افغانستان اور انڈیا سے تعلقات کے بارے میں ایک جامع کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں پاکستان میں عسکری شورشوں کے خلاف کی جانے والی کامیاب کارروائیوں کا بھی اچھا تجزیہ کیا گیا۔ اس کتاب میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت اور اس کی ادارتی کمزوریوں، خامیوں اور بیانیے پر جائز تنقید کی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف تنقید برائے تنقید نہیں ہے۔ اس کتاب میں ان کمزوریوں اور خامیوں کے حوالے سے ٹھوس حل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب میں پاکستان کے جمہوری عمل پر بھی تنقید کی ہے جس میں عام آدمی کی شرکت نہیں ہے اور جو ملک کی اشرافیہ کے ارد گرد گھومتا ہے جو اس کو آمروں کے انداز میں چلاتی ہے۔

حیرت ہے کہ پاکستانی حکّام نے اس کتاب کی تقریبِ رُونمائی کو رکوا دیا کیونکہ یہ کتاب نہ صرف جو کُچھ پاکستان کے اندر اور اطراف میں ہو رہا ہے اُس کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ یہ عام لوگوں کو اس بات کو سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات اُن دونوں کے اپنے اپنے مقاصد کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے لئے لازم و ملزوم ہے جو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سویلین اور پاکستان کے پڑوسیوں کے بارے میں خیالات اور اُس کے بیانیے کی کمزوریوں کو جاننا چاہتے ہیں۔