پاکستان میں تقسیم کے بعد سے ہی کبھی بھی کیمونزم اور سوشلزم کے حامیوں کو وہ اہمیت اور شہرت نہیں مل سکی جو کہ ایک مذہبی ذہنیت جسے (ہم رائٹ ونگ کہتے ہیں) کو ملی ہے ۔حکومتیں ہوں یا جتھے پاکستان میں ہمیشہ کامیاب وہی رہا ہے جس نے شدت پسندی کی جانب اکسایا ہو اور وہ شدت پسندی بھی رائٹ کی سوچ کی عکاسی پر مبنی ہونی چائیے۔ لیفٹ یعنی بائیں بازو کی جماعتیں ہوں یا افراد پر مشتمل تنظیمیں ہمیشہ ہی سے پس پشت رہی ہیں حالانکہ عالمی سطح پر ان کو کافی حد تک پذیرائی ضرور ملی ۔اس کا ایک بنیادی اور تاریخی پس منظر یہ بھی ہے کہ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس میں بھی کیمونسٹ پارٹی پاکستان کے تین اہم لیڈران اور پارٹی پر اس سازش میں ملوث ہونے کی بنا پر پابندی اور گرفتاری ہوئیں ۔کیمونسٹ پارٹی پاکستان یوں تو سی پی آئی (کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا) کی ذیلی جماعت تھی اور تقسیم کے بعد باقاعدہ ایکتا کے نظریہ پر پاکستان میں آئی تھی مگر زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور نا ہی ان کا نظریہ عوام میں مقبول ہوا ہاں البتہ بھارت میں کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کام کرتی رہی اور اپنا نظریہ عوام میں مقبول کروانے میں کامیاب رہی یہاں تک کہ نوجوان سٹوڈنٹ لیڈرز بھی پیدا کئے جن میں موجودہ وقت کہ کنھیا کمار اور شہلا راشد بھارت کے نوجوان چہرے ہیں ۔
پاکستان میں نظریہ (لال سلام)کو باقاعدہ کوئی پیلٹ فارم حاصل نہیں ہوا البتہ بہت سے کامریڈز نے مختلف شعبوں کو چن کر اپنا پیغام دینا جاری رکھا ہوا ہے اور خاصا نام کمایا ہے۔انہی میں سے ایک جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے کے سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی ہیں ۔ شاکر شجاع آبادی کو سرائیکی زبان کے شیکسپئر کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ان کو 2007 میں پہلی مرتبہ صدارتی ایورڈ سے جبکہ 2017 میں دوسری دفعہ صدارتی ایورڈ سے بھی نوازا گیا ۔ ان کا پہلا مشاعرہ 1986 میں منعقد ہوا۔ شاکر شجاع آبادی سو فیصد کیمونسٹ نظریات کے حامی ہیں ۔شاکر شجاع آبادی یوں تو تعلیم حاصل نہ کر سکے مگر ریڈیو سے شاعری سن کر جنوبی پنجاب اور خصوصا سرائیکی عوام کی پسماندگی کے تجربات سے انہوں نے شاعری کو اپنا پیشہ بنایا ۔ کیمونسٹ نظریات کو سرائیکی زبان میں شاعری سے پورے پاکستان میں یوں پہنچایا کہ پاکستان آج بھی حیران ہے کہ ایک ان پڑھ شخص کے صرف ایک زندگی میں آخر ایسے کیا تجربات رہے کہ اتنی گہری شاعری اور سرائیکی زبان کی ترویج کا کام شاکر شجاع آبادی نے بخوبی کر ڈالا۔
شاکر شجاع آبادی کا تعلق شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گاوٗں راجہ رام سے ہے جو ملتان سے ستر70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ شاکر شجاع آبادی 25 فروری 1968 کو پیدا ہوئے۔ وہ خود بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن انھوں نے سرائیکی عوام کی محرومیوں کو اجاگر کر کے ان کو جذبات کی عکاسی کے لیے زبان دی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ‘‘میرا مسئلہ صرف سرائیکی وسیب نہیں ہے بلکہ میں پوری دنیا کے مظلوم لوگوں کی بات کرتا ہوں چاہے کوئی کافر ہی کیوں نہ ہو ۔’’ شاکر شجاع آبادی 1994 تک بول سکتے تھے ۔ اس کے بعد فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث درست طور پر بولنے سے قاصر ہیں.
کہتے ہیں میں زیادہ سکول نہیں گیا ’’سب کچھ غور کرنے سے اور دنیا کے تجربات سے سیکھا ہے‘‘ ۔ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ‘‘پاکستان کے زوال کی اصل وجہ وڈیروں کا قابض ہونا اور لوگوں کا ان کے خلاف نہ اٹھنا ہے ۔ اگر لوگوں کو شعور دیا جائے کہ ان کی غلامی سے کیسے نکلنا ہے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں ‘‘۔موجودہ سیاسی نظام سے وہ منتفر ہیں۔
شاکر شجاع آبادی ماضی کے حکمرانوں میں سے ذوالفقار علی بھٹو کے مداح ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھا کر عام عوام کی حکمرانی کی بات کی۔ وہ سیکولرذہنیت کے مالک تھے ۔انھوں نے اپنی شاعری کی فکر اور فلسفہ کسی کتاب ، یونیورسٹی یا عظیم دانشوروں کے افکار و نظریات سے نہیں لیا ۔ بلکہ جو انھوں سے دیکھا ، سوچا ، سمجھا اور جو ان پر بیتی اسے قلم بند کرتے رہے۔
ان کی شاعری زبان کی حدود و قیود کو پھلانگ کر مظلوم قوموں اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بن چکی ہے ۔ پاکستان کے کونے کونے میں مزدور ، کسان ، جھونپڑیوں میں رہنے والے اور مذہبی فرسودگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ آپ کو شاکر شجاع آبادی کے اشعار سناتے ملیں گے اور ممکن ہے انھیں یہ بھی علم نہ ہو کہ ان اشعار کا خالق کون ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ان کی شاعری ان کے ذاتی مسائل خطے کی صورتحال اور سرائیکی وسیب کی پسماندگی کا فطری ردِ عمل ہے لیکن اپنے طرزِ اظہار کے باعث انھوں نے اپنی شاعری کو عالمی صورتحال سے جوڑ دیا ہے ۔۔ اور جب تک یہ مسائل ہیں ۔۔ اس خطے کے لوگ شاکر شجاع آبادی کو نہیں بھول سکتے۔ ان کی شاعری ان کے مسائل کی عکّاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں تبدیلی کی تڑپ کو زندہ رکھے گی
شاکر شجاع آبادی کی شخصیت تو مایا ناز ہے ہی مگر ان کے ساتھ بھی سلوک وہی رہا جو پاکستان میں ایک کیمونسٹ سوچ کے افراد یا لیڈر کا ہوتا ہے ان کو عزت تو خوب ملی ،حکومتی سطح پر پذیرائی بھی خوب ہوئی مگر ان کی شاعری میں چھپا مقصد پورا کیا گیا اور نہ ہی ان کی ذاتی غریب پسماندہ زندگی پر کوئی اثر پڑا۔ فالج کے حملے کے بعد سے وہ خود کھانہ کھانے سے بھی معذور ہیں جبکہ ان کی بولی صرف ان کا بیٹا سمجھ سکتا ہے اور وہ جو بولتے ہیں اسے وہ تحریر کر کےعوام تک پہنچاتا اور علاقائی مشاعروں میں شرکت کرتا ہے شاکر شجاع آبادی آج بھی چھونپڑی نما گھر میں رہتے ہیں اور خود اس بات کا تذکرہ انہوں نے ملاقات میں کیا کہ انہیں فاقے سہنا پڑتے ہیں ۔یوں تو عالمی سطح پر سرائیکی کا شیکسپئر کہلانے والا یہ شاعر ایک عظیم آدمی ہے مگر اس کے اصول اس کی شاعری سے بھی کہیں عظیم ہیں۔ حکومتی خیرات جو کبھی کبھار حکومتی نمائندہ چند لاکھ دے کر اپنی الیکشن مہم چمکاتے ہیں شاکر شجاع آبادی وہ رقم اپنے علاقے میں اسکول بنانے یا دیگر مسائل کہ حل میں خرچ کر دیتے ہیں۔ شاکر شجاع آبادی کا کہنا ہے کہ بطور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کو 2 لاکھ کا چیک دیا جس کو انہوں نے اپنے علاقے میں اسکول بنانے پر خرچ کیا مگر وہ اسکول بند ہے کیونکہ وہاں پڑھانے کے لئے اسٹاف نہیں ہے۔
شاکر شجاع آبادی کی ہر شاعری عام عوام کے مسائل بھوک افلاس بیان کرنے اور جاگیر دار طبقے کو للکارنے کے حوالے سے ہے۔ان کا مشہور زمانہ شعر جس کو نا صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ان ٹرئیڈ مارک کہا جاتا ہے وہ یہ ہے۔
بہتر حور دے بدلے گزارا ہک تے کر گھنسوں
اکہتر حور دے بدلے ساکوں رج تے روٹی دے
ان کی مجازی شاعری میں بھی سرائیکی وسیب کی غربت، افلاس، ظلم و جبر کی سیاہ رات، ناانصافی اور معاشی ناانصافیوں کے نوحوں کی جھلک نظر آتی ہے اور غور و فکر کے نئے دریچے کھولتی ہے. شاکر شجاع آبادی اپنے اشعار میں دوٹوک الفاظ میں ملک و قوم اور خاص طور پر سرائیکی وسیب کی محرومیوں کا ذکر کرتے ہیں. غربت، افلاس اور معاشی ناہمواریوں کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں۔
فکر دا سجھ ابھردا ہئے سوچیندیاں شام تھی ویندی
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندیاں شام تھی ویندی
ٹیگز: شاکر شجاع آبادی
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@