'آئین کے تحت فوجی بھی جان دینے کا پابند نہیں' نیوی تجاوزات گرانے کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کا موقف

'آئین کے تحت فوجی بھی جان دینے کا پابند نہیں' نیوی تجاوزات گرانے کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کا موقف
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیوی سیلنگ کلب، نیول گالف کورس اور نیول فارمز کو غیر آئینی قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل میں وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ آئین کے تحت فوجی کا کام سرحد کی حفاظت کرنا ہے، اس کے لئے وہ سرحد پر جان دینے یا دشمن فوجی کی جان لینے کا بھی پابند نہیں۔

وزارت دفاع نے اپیل میں کہا ہے کہ عدالت نے آئین پاکستان کی تشریح غلط کی ہے۔ اس لیے کیس پر نظر ثانی کرتے ہوئے عدالتی فیصلہ واپس لیا جائے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 جنوری کو اپنے فیصلے میں راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین ہفتوں میں گرانے کا حکم جاری کیا تھا، عدالت نے نیوی فارمز کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سی ڈی اے کو اس پر قبضہ لینے اور نیوی گالف کلب کو بھی گرانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی سمیت دیگر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کا حکم بھی دیا تھا اور عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

عدالت نے کیس کے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے ادارے کا نام استعمال نہیں کیا جا سکتا، اتھارٹی کو اختیار نہیں تھا کہ نیوی کو این او سی جاری کرتی۔ ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پاکستان نیوی نے نیشنل پارک ایریا پر تجاوز کیا، سیلنگ کلب غیر قانونی ہے، نیوی سیلنگ کلب کی بلڈنگ تین ہفتوں میں گرائی جائے۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے غیر قانونی عمارت کا افتتاح کرکے آئین کی خلاف ورزی کی، ان سمیت دیگر کے خلاف فوجداری کی کارروائی کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے تاہم نیوی نے بھی نیوی سیلنگ کلب، نیول فارم اور نیوی گالف کورس کو گرانے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔ وفاقی دارالحکومت کی ہائی کورٹ نے پاکستان نیوی کی ڈائریکٹ اپیل سننے سے انکار کرتے ہوئے وزارت دفاع کے ذریعے اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستان نیوی وزارت دفاع کے ماتحت محکمہ ہے اس لئے نیوی کو سیکریٹری دفاع کے ذریعے انٹراکورٹ اپیل دائر کرنی چاہیئے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پاکستان نیوی وزارت دفاع کے ماتحت آتی ہے اور وفاق کے ذریعے انٹراکورٹ اپیل آنی چاہیے۔ جس کے بعد وزارت دفاع کی جانب سے کیس کی اپیل دائر کی گئی۔

اس کیس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بنچ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت افواج پاکستان جس میں بری، بحری اور پاک فضائیہ شامل ہیں ان کا کام وطن کی سرحدوں کا دفاع ہے۔ اس فیصلے میں انہوں نے آرمی ایکٹ اور دیگر شقوں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ نیوی نے ان حدود سے تجاوز کیا۔

اس فیصلے کے جواب وزارت دفاع نے اپنی اپیل میں لکھا کہ آئین میں افواج پاکستان کا کردار یہ لکھا گیا ہے کہ اگر ملک میں کوئی غیر ملکی جارحیت ہوتی ہے تو فوج کا کام وطن کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ اپیل میں لکھا کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ دفاع کے لئے فوجوں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دینا ہے یا دشمن فوجیوں کو ہلاک کرنا ہے۔ پٹیشن میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر ہم آئین پر اتنی سختی سے چلے تو ایک جوان اگر سرحد پر جائے اور کہے کہ میرا کام وطن کو دفاع کرنا ہے، جان کا نذرانہ دینا یا دشمن کے فوجی کو ہلاک کرنا نہیں، اگر میں ایسا کروں گا تو یہ آئین سے تجاوز کے دائرہ کار میں آئے گا۔

وزارت دفاع کی جانب سے دائر اپیل میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آئین کی تشریح بالکل غلط ہوئی ہے، اسے درست کیا جائے۔ اپیل میں کہا گیا کہ نیوی کے تمام پروجیکٹس کی باقاعدہ منظوری لی گئی۔

نیوی سیلنگ کلب کے بارے میں لکھا گیا کہ 1992 میں اس وقت کے وزیراعظم کی جانب سے ڈائریکٹو جاری کی گئی تھی جس میں واٹر سپورٹس کو فروغ دینے کا فیصلہ دیا گیا تھا، جس کی بنیاد پر نیوی سیلنگ کلب بنایا گیا، اس کلب میں پانی کی کھیلوں کے تمام ایتھلیٹس کو ٹریننگ دی جاتی ہے، اب 25 سال بعد 2018 میں اس کی تزئین و آرائش کی گئی اس کے بعد سمجھا گیا کہ یہ ایک لگژری کلب بن گیا جبکہ حقیقت میں یہ ایسا کلب نہیں ہے۔

نیوی سیلنگ کلب کے بارے میں یہ بھی تاثر پایا جارہا تھا کہ اس کی ممبرشپ ملٹری، بیوکریسی اور پرائیویٹ سویلینز کے لیے کھولی گئی تو سویلینز سے اس کی بہت زیادہ فیس کا مطالبہ کیا گیا جس کی بنا پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ تاثر یہی ہے کہ نیوی سیلنگ کلب ایلیٹ یا اشرافیہ کی جگہ ہے۔ تاہم نیوی نے اپنی اپیل میں کہا کہ تاثر غلط ہے یہ عام عوام کی جگہ ہے جہاں کسی کو آنے سے نہیں روکا جاتا۔

نیوی فارمز کے حوالے سے بھی اپیل میں لکھا گیا کہ 25 سال قبل 9000 ایکٹر جگہ نیوی افسران کے مطالبے پر قانونی طریقے سے خریدی گئی اور وہاں فارم ہاؤسز بنائے گئے۔

اپیل میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ 7 جنوری کو نیوی سیلنگ کلب، نیوی فام اور نیوی گالف کلب کے متعلقہ فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہیں واپس لیا گیا۔

خیال رہے کہ نیوی کلب کی تعمیر کے خلاف درخواست زینت سلیم نامی خاتون نے دائر کر رکھی تھی جس میں موقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی ہیں کیونکہ اس سے قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ راول ڈیم سے راولپنڈی شہر کو پانی کی ترسیل کی جاتی ہے۔ اس لیے راول ڈیم کے کنارے سیلنگ کلب سے ماحولیاتی آلودگی پھیلے گی۔

جولائی 2020 سے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ ابتدائی طور پر نیوی حکام نے موقف اپنایا تھا کہ 1991 میں حکومت پاکستان نے یہ جگہ سیلنگ کی پریکٹس کے لیے پاکستان نیوی کے لیے مختص کی تھی۔

نیوی کی جانب سے تحریری جواب میں نیول چیف نے کہا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی ہدایات پر نیشنل واٹر سپورٹس سینٹر گذشتہ 25 برس سے پاکستان نیوی کے پاس ہے جس کے قیام کا مقصد واٹر سپورٹس میں نوجوان ایتھلیٹس کی استعدادکار بڑھانا ہے۔

’سینٹر کو پاکستان میں واٹر سپورٹس کی ترقی کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ اور اپ گریڈ کرنے کا پراجیکٹ جولائی 2020 میں نان پبلک فنڈز سے مکمل ہوا اور اس میں عوامی پیسے کا استعمال نہیں کیا۔‘ انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ معاملے کو وسیع تر قومی مفاد میں دیکھا جائے۔