Get Alerts

قبائلی اضلاع کے لئے مختص فنڈز میں 21 ارب کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

قبائلی اضلاع کے لئے مختص فنڈز میں 21 ارب کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
اسلام آباد: افاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کیلئے 10سالہ تیز تر ترقیاتی پروگرام (اے آئی پی) کے تحت مختص فنڈ میں پہلے ہی سال کے دوران21 ارب11 کروڑ39 لاکھ روپے کی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران قبائلی اضلاع میں صرف 5 شعبہ جات صحت، تعلیم، زراعت، کھیل اور مواصلات و تعمیرات کے محکموں کے آڈٹ کا انتخاب کیا گیا جس میں اختیارات کے ناجائز استعمال، قواعد و ضوابط کے برعکس من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے، ہسپتالوں کیلئے زائد المیعاد ادویات کی خریداری، وزیرستان اور باجوڑ کے ہسپتالوں کیلئے سکین مشین کی خریداری میں اربوں روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں سامنے آئی ہیں۔

اربوں روپے کی مالی بے قاعدگیوں کی ایک وجہ کمزور انتظامی امور کو بھی قرار دیا گیا ہے جبکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران نے آڈیٹر جنرل کو قبائلی اضلاع کے فنڈز کی فارنزک آڈٹ کیلئے درخواست بھی دی ہے۔ بائیو میڈیکل ویسٹ انسینریٹر کیلئے کنٹریکٹر کے انتخاب میں خزانے کو 11کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ پشاور کے روزنامہ آئین اخبار میں عرفان خان کے شائع شدہ خصوصی رپورٹ میں قبائلی اضلاع کے لئے مختص فنڈز میں بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ کی جانب سے کیپری میڈیکلز کو 8بائیو میڈیکل ویسٹ انسینریٹر کو 2کروڑ85لاکھ 10ہزار روپے فی یونٹ کے حساب سے ٹھیکہ دیا گیا تاہم خصوصی آڈٹ اور مذکورہ کمپنی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ کمپنی کو تکنیکی جائزہ کے دوران زیادہ نمبر دیئے گئے کیپری میڈیکلز کمپنی کو 3باڈی سکین کی فراہمی کیلئے 47کروڑ 40لاکھ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ پی سی ون کے مطابق ایک سکین مشین کی قیمت8کروڑ روپے ظاہر کی گئی تاہم ایک سکین مشین کی ادائیگی 15کروڑ80لاکھ روپے کی گئی ہے اور صرف ایک مشین کی ادائیگی میں 7 کروڑ80لاکھ روپے کی بے قاعدگی دیکھنے میں آئی ہے، 3سکین مشینوں کی مد میں مجموعی طور پر 23کروڑ40لاکھ روپے کی مالی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔

پی سی ون کے مطابق 8انسینریٹر کی قیمت 7کروڑ60لاکھ روپے ظاہر کی گئی تاہم یہاں 22کروڑ80لاکھ80ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی اس مد میں 15کروڑ 20لاکھ80ہزار روپے کی بے قاعدگی رپورٹ کی گئی ہے۔ پی سی ون کے مطابق 50 کے وی جنریٹر کی قیمت 2کروڑ25لاکھ روپے ظاہر کی گئی تاہم 5 جنریٹر کی مد میں 2کروڑ 67 لاکھ50ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی اور اس مد میں 42لاکھ50ہزار روپے کی بے قاعدگیاں ہوئیں جس میں ایک سکین کی قیمت 15کروڑ80لاکھ روپے ہے۔

خصوصی آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ ٹھیکہ کے حصول کیلئے جن2کمپنیوں نے کاغذات جمع کرائے تھے دونوں کمپنیوں کامالک ایک ہی فرد جیمز اقبال ہیں، اسی طرح کیپری میڈیکلز کمپنی کو قبائلی اضلاع کے سیکنڈری ہسپتالوں کو طبی اور غیر طبی آلات کی فراہمی کیلئے 55کروڑ62لاکھ50ہزار روپے کا ٹھیکہ دیا گیا جس میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں ہوئیں۔ جگر کیلئے سکین مشین خریداری کی مد میں خزانے کو8کروڑ22لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، جنریٹر اور وین ویژولائزیشن سسٹم کی مد میں 7کروڑ93لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگیاں کی گئیں، مختلف آلات خریداری کی مد میں 71لاکھ روپے کے زائد اخراجات استعمال کیے گئے، مختلف منصوبوں کی سرگرمیوں پر ایک ارب27کروڑ21لاکھ روپے کے اضافی اخراجات کئے گئے، پی سی ون کے برعکس طبی آلات، گاڑیوں کی خریداری پر 40کروڑ67لاکھ روپے اضافی خرچ کئے گئے، الٹراساؤنڈ مشین کی مد میں غیر قانونی طورپر ایک کروڑ29لاکھ روپے خرچ کئے گئے، ضرورت سے زائد اخراجات کی مد میں خزانہ کو 30کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔


ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے اکاؤنٹ میں غیر قانونی طور پر 41کروڑ روپے کا فنڈ منتقل کیا گیا، مشکوک کنٹریکٹر کے انتخاب میں خزانہ66کروڑ78لاکھ روپے کی فضول خرچی کی گئی، اینٹی ریبیز ویکسین خریداری کی مد میں 55کروڑ84لاکھ روپے کی غیر قانونی اخراجات کئے گئے زراعت کیلئے آلات کی خریداری کی مد میں 44کروڑ86لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں، مختلف منصوبوں کی سرگرمیوں پر 53کروڑ88لاکھ روپے غیر قانونی طور پر خرچ کئے گئے، طبی آلات خریداری پر94کروڑ 59لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی، ہیپاٹائٹس کیلئے زائد المیعاد ادویات کی خریداری کی مد میں خزانہ کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، ذیابیطس کٹس،طبی آلات اور جنریٹر کی عدم فراہمی کی مد میں خزانہ کو67کروڑ77لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ہسپتالوں کو دیئے گئے اہداف کی حصول میں ناکامی اور منصوبوں پر خزانہ کو ایک ارب27کروڑ48لاکھ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا، مقررہ مدت میں منصوبے کی عدم تکمیل سے خزانے کو 5ارب73کروڑ34لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، منصوبے کی سرگرمیوں سے متعلق تھرڈ پارٹی آڈٹ اور مانیٹرنگ اینڈ ایوالویشن نہ ہونے سے خزانہ کو 2ارب89 کروڑ15لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پارہ چنار میں گرین ہاؤس غیر فعال ہونے سے 2کروڑ95لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں ہوئیں، مفت کتب کی تقسیم کے دوران تصدیق نہ ہونے سے 31کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، فرنیچر، سٹیشنری اور سکول بیگز خریداری کی مد میں 56 کروڑ 72لاکھ روپے کے غیر قانونی اخراجات کئے گئے، آلات کی خریداری کی مد میں خزانہ کو33کروڑ44لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، الٹرا ساؤنڈ، سینی ٹائزر، کھیل کے سامان، مفت کتب، ملٹی میڈیا اور دیگر آلات خریداری کی مد میں 74کروڑ32لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، مذکورہ پروگرام کے تحت 211 منصوبوں کی منظوری دی گئی تھی جس کی مجموعی مالیت227ارب روپے تھی۔
خصوصی آڈٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ مشکوک فراہمی، زائد اخراجات، غیر قانونی طور پر فنڈز کی تقسیم اور منتقلی کی تحقیقات ہونی چاہیئے، مشکوک کنٹریکٹر کی خدمات حاصل کرنے کی بھی تحقیقات ہونی چاہیئے، مختلف طبی آلات اور ادویات کی عدم فراہمی کی تحقیقات ہونی چاہیئے اور ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے قواعد و ضوابط کے برعکس خریداری کرنے میں ملوث افراد سے نہ صرف وصولی کی جائے بلکہ ان کیلئے سزا کا تعین بھی کیا جائے جس کی وجہ سے خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔

ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ اور ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ان افسران کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے جو مشکوک اور مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ زائد ہونے والی ادائیگی کی رقم وصول کی جائے ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے قبائلی اضلاع میں تعلیم کیلئے مختص فنڈ بندوبستی اضلاع میں خرچ کرنے کی تحقیقات ہونی چاہیئے، طبی آلات اور دیگر اشیاء کی خریداری میں خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ قواعد و ضوابط کو یکسر نظر انداز کیا گیاخصوصی آڈٹ میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کی ایک وجہ انتہائی کمزور انتظامی امور کو بھی قرار دیا گیا ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔