پاکستان کی 75 سالہ تاریخ، قانون ساز ادارے اقلیتی خواتین کی نمائندگی سے محروم

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ، قانون ساز ادارے اقلیتی خواتین کی نمائندگی سے محروم
خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد دسمبر 2021 میں ہوا۔ جس میں خواتین کے لیے 2382 نشستیں مختص تھیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 1458 خواتین نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لیا اور منتخب ہو کر ضلع کا حصہ بنیں۔ 575 خواتین بلا مقابلہ کامیاب قرار پائیں، 349 نشستیں خالی رہ گئیں اور 574 کا رزلٹ ابھی نہیں جاری کیا گیا۔

خیبر پختونخوا میں مسیحی مذہبی اقلیتوں کی کل تعداد 0.21 فیصد ہے۔ اگر ان 17 اضلاع میں مذہبی اقلیتی خواتین کا جائزہ لیا جائے تو صرف 4 خواتین نے باقاعدہ الیکشن میں حصہ لیا اور جیت ان کا مقدر بنی۔



 

ان میں اقلیتی برادری کی ایک خاتون پشاور سے، 2 چارسدہ سے اور ایک کوہاٹ سے شامل ہیں جبکہ نوشہرہ، خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی، مردان، صوابی، کرک، ہنگو، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل، ٹانک، ہری پور، بونیر اور باجوڑ سے ایک بھی اقلیتی خاتون براہِ راست منتخب نہیں ہوئی۔

دوسری طرف 2033 منتخب خواتین میں بھی مذہبی اقلیتی برادری کی خواتین کی شرح انتہائی کم ہے۔ جس میں صرف 22 خواتین اقلیتی برادری سے ضلع کونسل میں شامل ہوئیں۔

ان میں  18 خواتین صوبائی دارالحکومت پشاور سے، 2 چارسده سے، 3 مردان سے، 2 ٹانک ،ایک بنوں اور 1 بونیر سے ہے۔ جبکہ 11 اضلاع میں مذہبی اقلیتی خواتین کی کوئی نمائندگی موجود نہیں ہے۔



پشاور سے بلا مقابلہ ضلع کونسل کا حصہ بننے والی مسیحی خاتون روبینہ میسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ”مذہبی اقلیتی برادری کی خواتین کے پاس مواقعوں کی کمی ہے۔ مسیحی برادری کے لئے تو اگرچہ تعلیمی ادارے موجود ہیں، لیکن سکھ کمیونٹی، ہندو، بہائی کمیونٹی کے بچے اور خاص طور پر بچیاں تعلیم سے محروم رہ جاتیں ہیں۔

اکثر ان کے لئے الگ سے ادارے تو موجود نہیں ہوتے اور باقی سرکاری اور نجی ادروں میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے ساتھی طلبہ کی طرف سے امتیازی سلوک کے باعث سکولز نہیں پڑھتیں یا چھوڑ دیتی ہیں۔ اس طرح ان کی ایک بڑی شرح غیر تعلیم یافتہ ہے اور جس سے ان میں شعور اور خود اعتمادی کی کمی رہ جاتی ہے اور یہی کمی انہیں ہر شعبے میں محسوس ہوتی ہے“۔

صوبے کے سیاسی دھارے میں بھی ہندو، سکھ اور مسیحی خواتین کا سیاست اور فیصلہ ساز اداروں میں آنے کا رجحان نہیں ہے۔ صوبے کی تاریخ میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں گذشتہ 70 سال میں کوئی مذہبی اقلیتی برادری کی خاتون نہ تو منتخب ہو کر آئی اور نہ ہی خواتین کے لئے مختص یا اقلیتی برادری کے لئے مختص نشستوں پر کوئی خاتون صوبے یا مرکز میں خیبر پختونخوا کا حصہ بنی۔

ماضی کے لوکل گورنمنٹ انتخابات میں ان کی نمائدگی موجود نہیں رہی۔ اگرچہ مرد اقلیتی برادری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم خواتین کی کمی سے ان کے مسائل کو اجاگر کرنے، قانون سازی کرنے، تجاویز دینے اور اپنی خواتین کی آواز بننے کا فقدان رہا جس سے وہ استحصالی کا شکار رہی ہیں۔

آئین پاکستان میں تمام مذہبی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو تحفظ حاصل ہے۔ اس کے مطابق آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری برابر ہیں۔ آرٹیکل 15 کے تحت انہیں ہر طرح کی نقل وحرکت کی آزادی حاصل ہے۔

آرٹیکل 9 کے تحت ان کے جان ومال کا تحفظ سمیت آئین کے آرٹیکل 8 سے 28 تک 21 بنیادی انسانی حقوق تخویض کئے گئے ہیں، جو کہ پاکستانی شہریت کی حامل مذہبی اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ تعلیم اور روزگار کی سہولت کے لئے مخصوص کوٹے کی فراہمی، مذہبی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال تعمیر ومرمت کے لئے فنڈز کی فراہمی جیسی سہولیات  بھی اضافی طور پر فراہم کی گئی ہیں۔

اس کے باوجود پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اقلیتی برادری کی خواتین ایک مرتبہ بھی خیبر پختونخوا سے پاکستان کے ایوان ِزیریں یا (صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یا سینیٹ) کا حصہ نہیں رہیں اور نہ ہی باقاعدہ الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ہی مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں کا حصہ بنیں۔

اگرچہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں 2 نشستیں اقلیتی برادری کے لئے مختص ہوتی ہیں تاہم ان نشستوں پر بھی کھبی بھی خاتون رکن اسمبلی نہیں بن پائی۔ ہر مرتبہ سکھ، ہندو یا مسیحی برادری کے مرد حضرات ہی اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں۔

دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگز بھی موجود ہیں جیسے کہ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، پاکستان تحریکِ انصاف، جمیعت علمائے اسلام وغیرہ۔ لیکن ان کی طرف سے اقلیتی ونگز سے خواتین کو نہ تو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور نہ ہی انہیں اپنی پارٹیوں کی طرف سے اسمبلیوں تک پہنچایا گیا۔

جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے لئے ان پارٹیوں سے خواتین کے نام مانگے جاتے ہیں تو یہ صرف مسلم خواتین کی فہرست جمع کراتے ہیں اور جب اقلیتی نمائندگی کے لئے فہرست مانگی جاتی ہے تو بھی صرف مرد اقلیتی افراد کی لسٹ فراہم کی جاتی ہے۔

اس طرح اقلیتی خواتین نہ تو خواتین کی فہرست میں اور نہ ہی اقلیتی برادری کی فہرست میں شامل کی جاتیں ہیں۔ اس طرح سیاست میں اقلیتی برادری کی خواتین اقلیتوں میں بھی مزید اقلیت کا شکار ہیں۔

ایک طرف تو وہ مذہبی اقلیت ہیں اور دوسری طرف اپنی برادری میں بھی خواتین اقلیت ہیں، کیونکہ وہاں بھی مرد اکثریت میں ہوتے ہیں۔ لہذا پاکستان کے قانون ساز ادارے ہمیشہ سے ہی اقلیتی برادری کی خواتین کی نمائندگی سے محروم رہے ہیں۔

اس حوالے سے لوگوں کے رویے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو کہ مسیحی، ہندو اور سکھ کمیونٹی کی خواتین میں خود اعتمادی کے فقدان کی بڑی وجہ بنتے ہیں اور چونکہ حصول کی شرح کم ہے، اس لئے پھر بہترین ملازمتوں کے حصول میں بھی یہ خواتین ملکی سطح پر اقلیتی برادری کو دیئے جانے والے 5 فیصد کوٹے کے باوجود پیچھے رہ جاتی ہیں یا پھر کلاس فور، نرسز اور دیگر چھوٹے عہدوں پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتیں ہیں۔

اگرچہ اب حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دسمبر 2021ء میں خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع میں ہونے والے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں خواتین کی کم شرح ہی سہی لیکن خواتین نے سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن یہاں سے سیاسی تربیت حاصل کرنے والی خواتین پر بھی امید نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ آنے والے چند برسوں میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے کر اور جیت کر یا پھر مخصوص نشستوں پر ہی صوبائی اسمبلیوں کا حصہ بنیں گی یا نہیں کیونکہ مذہبی اقلیتی برادری ہونے کے باعث ان کے اندر پھر بھی امتیازی سلوک ہونے کا ڈر رہے گا۔



نیبرہڈ (این سی) 82 لنڈی ارباب پشاور سے آزاد حیثسیت سے اقلیتی کونسلر کی نشست پر لوکل گورنمنٹ الیکشن  میں حصہ لے کر 1338ووٹ لے کر کامیاب ہونے والی شہلا کامران نے بتایا، ”اس کے مقابلے میں بھی مسیحی برادری کے طاہر کو 800 ووٹ ملے۔ شہلا کے مطابق اقلیتی برادری کا آپس میں مقابلہ نسبتا آسان تھا۔ شاید مسلمان سے مقابلہ ہوتا تو زیادہ مشکل ہوتی۔ دوسری طرف آج کل لوگ مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ اعتماد اس لئے کرتے ہیں کہ عورتیں زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں"۔

خیبر پختونخوا میں خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم خویندو کور کی نمائندہ میڈم دیبا نے بتایا، ” اس مرتبہ لوکل گورنمنٹ میں اقلیتی برادری کی خواتین کی مکمل رہنمائی کی گئی۔ تمام کے تمام طریقہ کار میں ان کے لیے فارم بنوانے، پر کروانے اور تمام تر لوازمات کو پورا کرنے میں ہماری تنظیم نے ان کی مدد کی۔ کچھ خواتین جیت نہیں پائیں لیکن ان کا الیکشن میں حصہ لینا ہی میرے خیال میں ان کی جیت ہے۔ ان کی ہمت دکھانا اور ایک ان کے لیے نئے شعبے میں قدم رکھنا بہت بڑی بات ہے"۔



بلدیاتی انتخابات میں جنرل سیٹ پر الیکشن لڑنے والی مسیحی خاتون میڈم لبنیٰ نے ویلج کونسل (وی سی) 30 دائود زئی پشاور سے آزاد حیثیت سے حصہ لیا جو کہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ وہ ایک سوشل ورکر ہیں اور ان کے مقابلے میں حکمران جماعت کے امیدوار ملک شہزاد کامیاب ہو گئے۔ اس علاقے میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 2000 ہے جبکہ انہیں مسلم ووٹرز کی بھی حمایت حاصل ہے۔

میڈم لبنیٰ کے مطابق، " ملک شہزاد نے اقلیتی اور مسلم ووٹرز کو فی کس مبینہ طور پر 5000 روپے دے کر ووٹ خریدا ہے جبکہ میری کافی خدمات تھیں اور لوگوں نے اعتماد بھی دیا لیکن دھاندلی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے روز بھی میرے مرد اور خاتون ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشن میں جگہ نہیں دی جا ری تھی جس کی وجہ ایک تو یہ بھی ہے کہ میں ایک خاتون ہوں اور دوسری یہ کہ میرا تعلق اقلیتی برادری سے ہے، یہ دونوں وجوہات اڑے اگئیں"۔

ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے تاکہ جب وہ الیکشن کے لئے مانگی گئی مخصوص نشستوں کا اندراج کریں تو صنفی مساوات کو مدنظر رکھیں اور اقلیتی امیدواروں کی فہرستوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی شامل کریں یا انہیں خواتین کے لئے مختص 22 نشتوں میں شامل کریں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی مینارٹی ونگز کو جینڈر بیلنس کریں۔

ان خواتین کو پارٹی کے شعبہ خواتین میں بڑے عہدوں پر رکھیں جبکہ حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی ان کی سیاسی تربیت کی جائے تاکہ بحثیت پاکستانی شہری ان کے حالات میں بہتری آئے، انہیں  قانونی طور پر  تحفظ اور اعتماد حاصل ہو سکے۔

یہ بلاگ روادار کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔ ایک بلاگ سیریز جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں کی دستاویز کرتی ہے۔