2019ء میں حکومت کو گھر بھیجنے کا تقریباً فیصلہ ہو چکا تھا لیکن کورونا آگیا، تبدیلی کا عمل پیچھے رہ گیا

2019ء میں حکومت کو گھر بھیجنے کا تقریباً فیصلہ ہو چکا تھا لیکن کورونا آگیا، تبدیلی کا عمل پیچھے رہ گیا
سینئر صحافی حبیب اکرم نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پشتیبانوں نے اکتوبر 2019ء میں تقریباً حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن پھر کورونا وائرس کی وبا آنے سے تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ گیا۔

یہ انکشاف انہوں نے اپنے ایک ویڈیو کالم میں کیا۔ حبیب اکرم نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت اپنی بے انتہا نالائقی کے باوجود 3 سال اور 5 مہینے پورے کر چکی ہے۔

حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر سے نئی قیادت پیدا ہونے کے امکانات، مائنس ون، اسمبلی توڑنے کی تجویز پر غور اور عدم اعتماد کی باتیں  صرف افواہیں نہیں بلکہ وہ شرائط ہیں جو پاکستان اور لندن میں بیٹھے افراد دوبارہ آپس کے بہتر تعلقات کیلئے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ عمران خان کا کہنا کہ میں اقتدار سے نکل کر اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا تو یہ پیغام ہر اس شخص کیلئے ہے جو جمہوریت کی آڑ میں غیر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سازش اگر کھل جائے تو قومی مفاد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یعنی اب یہ کہا جائے گا کہ عمران خان کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے، اس لئے انہیں حکومت چھوڑ کر چلے جانا چاہیے۔



حبیب اکرم نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ لندن سے آنے والوں میں کون قاصد ہے اور کون مسافر۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری جب اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے اور عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک ڈیڑھ سال کیلئے وزارت عظمیٰ کی خواہشمند ہے یہ کہ نواز شریف عدم اعتماد کے 3 مہینے بعد الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس ساری گیم کے اہم ترین فریق نواز شریف کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انہوں نے گذشتہ ڈیڑھ سال سے سیاست کا جو انداز اپنایا، اس میں انتہا پسندی جھلکتی ہے۔ ان سے توقع تھی کہ وہ اعتدال پیدا کریں گے۔ لیکن اعتدال کا مطلب آلۂ کار بننا نہیں ہوتا۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ آلۂ کار کو کبھی عزت نہیں ملتی۔