بے شک کورونا وائرس ایک خطرناک بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور اس سے احتیاط کرنا لازم ہے۔ کچھ لوگ تو اسے بائیولوجیکل جنگ بھی کہتے ہیں کہ بڑے ممالک نے ایک دوسرے کی اکانومی گرانے کیلیے یہ بیماری لیب میں تیار کی چونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا اس لیے میں بھی اس پر یقین نہیں رکھتا۔
لیکن ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ یہ وائرس بہت عقلمند ہے جسے صرف اسلامی تہوار اور تعلیمی ادارے ہی نظر آتے ہے۔ جیسے ہی اسلامی تہوار عید الفطر، رمضان، عید الاضحی قریب آتے ہیں مسٹر کورونا بھی زور پکڑ لیتا ہے اور پھر حکومت کی طرف سے مسجدوں میں اجتماعات پر پابندی لگ جاتی ہے اور نماز پانچ فٹ کے فاصلے سے پڑھنے کا حکم صادر ہوتا ہے جو کہ خلاف شریعت ہے کیونکہ نبی کریمؐ نے کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ پھر مسجدوں کے خلاف کریک ڈاون شروع ہوجاتا ہے اور نمازیوں پر جرمانے ہونے لگ جاتے ہے۔ چند دن قبل ہی فیصل مسجد اسلام آباد کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر سیل کر دیا گیا۔ اللہ کی پناہ!
چلو مان لیا کہ کورونا سے احتیاط کرنی چاہیے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا ہونی چاہیے لیکن کیا یہ قانون صرف مسجدوں کیلیے ہی ہے؟ حال ہی میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہوا ہے جہاں پر حکومتی جماعت اور تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھر پور حصہ لیا اور لاکھوں کا مجمع اکھٹا کر کے جلسے جلوس نکالے تب کہاں تھا کورونا؟ کدھر تھے ایس او پیز اور کدھر تھا قانون ؟ تب کسی کو بیماری سے احتیاط کا خیال نہ آیا اور نہ کسی ادارے کو قانون یاد آیا۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے سارے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کیے اور تب کورونا بھی پِیک پر تھا لیکن کسی حکومتی عہدیداد نے ایکشن نہ لیا اور نہ قانون حرکت میں آیا۔ کیا قانون صرف مسجدوں کے لیے ہے یا تعلیمی اداروں کیے لیے؟
اب زرا باقی دنیا پر نظر ڈالتے ہے تو سب سے پہلے سعودی عرب کی بات کرتے ہے جہاں پر حجاز مقدس واقع ہے اور وہاں پر اس بار صرف 60 ہزار مقامی لوگوں کو حج کی اجازت دی گئی جبکہ پہلے ہر سال لاکھوں لوگ حج کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہی دنوں سعودی عرب میں سات کے قریب بڑے سینیما ہالز کا افتتاح ہوا ہے اور افتتاحی فلم میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی لیکن تب کورونا کا خیال نہ آیا اور نہ سوشل ڈیسٹینسنگ؟ اور صرف ایک ہفتہ پہلے برطانیہ میں یورو فٹبال کپ کا انعقاد ہوا ہے اور اس کے ہر میچ میں لاکھوں لوگ شریک تھے اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جبکہ برطانیہ کورونا وائرس سے متاثرہ ملکوں کی فہرست میں چھوتھے نمبر پر ہے لیکن ان لوگوں نے شائقین پر سختی تو نہیں کی اور نہ پابندی لگائی اور صرف چند مہینے قبل انڈیا میں کُ م کا میلہ لگا جو کہ ہندووں کا تہوار ہے جس میں ان گنت لوگوں نے شرکت کی جبکہ بھارت دنیا میں متاثرہ ملکوں میں سر فہرست ہے لیکن کسی نے پابندی نہ لگائی پھر ہم لوگ مسجدوں اور اللہ کے گھر حرم شریف پر پابندی کیوں لگاتے ہیں؟ کیا ہمارے ایمان اتنے کمزور ہو چکے ہیں؟
کورونا وائرس ایک حقیقت ہے لیکن اس بیماری کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنانا غلط ہے، اگر قانون رکھنا ہے تو سب کے لیے برابر رکھا جائے اور اس مد میں تمام جلسے جلوس بھی بند کرنے چاہیئں۔
یاد رکھیں یہ دنیا کی زندگی صرف چار دن کی ہے ادھر جتنی بھی دولت اور شہرت آجائے وہ صرف چند دن کی ہے اس کے بعد سب ختم اور پھر بروز محشر ایمان والے خوش ہونگے اور بے ایمان روئیں گے اس لیے اب بھی وقت ہے اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بے شک کورونا سے احتیاط کریں لیکن اللہ کی حدوں کو توڑیں مت۔ آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ آمین!