صحافی اسد علی طور نے تہلکہ خیز خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے ہنگامہ خیز اجلاس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے نامزد کردہ تمام پانچ ججوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یوں معزز چیف جسٹس کو اپنے ہی گھر میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ میں منعقد ہونے والے اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی صدارت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔ ان کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سجاد علی شاہ، ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپین اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے امریکہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اہم اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے نامزد کردہ پانچ ججوں کے ناموں کا اعلان کیا۔ ان میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان، لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس شاہد وحید، سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس نعمت اللہ شامل تھے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمیشن کے شرکا سے کہا کہ اگر کسی کو ان ناموں پر اعتراض ہے تو وہ اپنی بات اس فورم پر رکھ سکتا ہے۔ اس پر ریٹائرڈ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ وہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کے نام کو مسترد کرتے ہیں جبکہ باقی چار ناموں کے وہ حق میں ووٹ دیں گے۔ جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی باری آئی تو انہوں نے صرف ایک جملہ بولا اور کہا کہ میں ان تمام ناموں کو ویلکم کرتا ہوں۔
جسٹس سجاد علی شاہ 14 اگست 2022 کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کے بارے میں پہلے سے بار کونسلز کا اعتراض تھا کہ یہ ریٹائر ہو رہے ہیں، یہ اپنا جانشین کیسے تعینات کر کے جا سکتے ہیں۔ تاہم یہ اجلاس میں شریک ہوئے اور انہوں نے پانچوں ناموں پر چیف جسٹس کی حمایت کی۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف علی کی باری آئی تو انہوں نے پانچوں ججز کی نامزدگی کو مسترد کر دیا اور جسٹس طارق مسعود کھوسہ نے بھی ان تمام ناموں کو مسترد کر دیا۔ جسٹس طارق مسعود کھوسہ سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد تیسرے سینیئر ترین جج ہیں۔ انہوں نے ان نامزدگیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنیارٹی کے اصول کو ایک مرتبہ پھر یہاں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور انہوں نے ایک چارٹ بنا رکھا تھا جس میں دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ ان ججز کے بہت سارے فیصلے سپریم کورٹ سے رد ہو چکے ہیں۔ ان فیصلوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کون سا جج کتنا قابل ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان کا کیس ابھی مؤخر کر دیا جائے اور باقی سب افراد کے ناموں کو میں مسترد کرتا ہوں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ میں جسٹس طارق مسعود کی تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ جب بار بار یہ نکتہ اٹھایا جا چکا ہے تو پھر آپ سینیئر ججز کے ناموں پر کیوں غور نہیں کرتے اور ان کی جگہ چوتھے، چھٹے اور ساتویں نمبر کے ججز کے نام لے آتے ہیں جن کے اوپر سینیئر ججز ہیں، ان کے فیصلوں کی بار کونسلز تعریف کرتی ہیں، قابل ججز ہیں، ان کے نام پر کوئی داغ نہیں ہے، ان کو چھوڑ کر جونیئر ججز کو کیوں اوپر لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو بہت ضرورت ہے تو سول معاملات کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے چیف جسٹس امیر بھٹی کو لے آئیے اور اگر فوجداری مقدمات کے لئے جج چاہیے تو لاہور ہائی کورٹ سے ہی دوسرے نمبر پر سینیئر ترین جج جسٹس ملک شہزاد احمد کو لے آئیں۔ ان پانچوں ناموں کو میں مسترد کرتا ہوں۔
پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین نے بھی سنیارٹی کے اصول کو تسلیم نہ کرنے پر جونیئر ججز کی نامزدگی کو مسترد کر دیا۔
اب معاملہ 4-4 سے برابر تھا۔ آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی باری آئی تو انہوں نے بھی سپین سے ویڈیو لنک پر اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں ان پانچوں ججز کے ناموں کو مسترد کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ سنیارٹی کا اصول ایک مرتبہ پھر نہیں اپنایا جا رہا۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنی سیٹ سے برہمی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ میں سندھ ہائی کورٹ کے ساتویں نمبر کے جج نعمت اللہ پھلپوٹو کا نام مسترد سمجھتا ہوں جب کہ باقی چار ججز کے نام مؤخر کر رہا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ اجلاس سے نکل گئے اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ کر چلے گئے۔ باقی ارکان ہکا بکا رہ گئے کہ یہ کیا ہوا۔ بعد ازاں چائے پر بھی ان دونوں معزز جج صاحبان نے باقی ارکان کا ساتھ نہ دیا۔
یاد رہے کہ جن ناموں کو مسترد کر دیا جائے یہ دوبارہ کسی کمیشن میں نہیں نامزد کیے جا سکتے۔ لیکن مؤخر ہونے کی صورت میں دوبارہ ناموں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ یہاں 4 کے مقابلے میں 5 کی اکثریت سے ججز کے نام مسترد ہو گئے لیکن چیف جسٹس صاحب نے چار ناموں کو مؤخر تصور کر لیا یعنی وہ دوبارہ انہی ناموں کو سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس کو اپنے گھر میں ہی عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر نظرِ ثانی میں انہیں سپریم کورٹ میں 4 کے مقابلے میں 6 ججز کے فیصلوں سے شکست ہوئی تھی۔ البتہ اس وقت وہ چیف جسٹس نہیں تھے۔ یاد رہے کہ ابھی تو جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے لیکن 14 اگست کو یہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور جلد ہی ان کی جگہ جوڈیشل کمیشن میں جسٹس منصور علی شاہ لے لیں گے اور وہ بھی ماضی میں سنیارٹی کے اصول کی پابندی پر زور دے چکے ہیں۔
سب سے حیران کن بات لیکن یہاں یہ ہے کہ کمیشن کے بعد پریس ریلیز میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے جسٹس سرمد عثمانی، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے کہنے پر ان ناموں پر اجلاس کو مؤخر کر دیا، یعنی یہ نام مسترد نہیں ہوئے۔
جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک خط لکھا اور بتایا کہ ان ججز کو 5 ارکان نے مسترد کیا اور غیر معمولی بات یہ ہوئی کہ پہلی مرتبہ چیف جسٹس جو جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین ہیں، وہ فیصلہ ڈکٹیٹ کروائے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر minutes of the meeting جاری کروائے جائیں۔ اسد علی طور کا کہنا تھا کہ یہ ایک عجیب و غریب صورتحال ہے اور اس سے ایک عدالتی بحران پیدا ہو رہا ہے۔