اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم قبول کرے گی؟

کیا عدالتیں نواز شریف کو انتخابات سے پہلے بے قصور قرار دے دیں گی اور انہیں ایک بے گناہ شخص کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ انہیں الیکشن لڑنے دے گی؟ یہ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جوابات غیر واضح ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو بطور وزیر اعظم قبول کرے گی؟

موجودہ حکومت لگ بھگ دو ہفتوں میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کی فہرست میں درج ہو جائے گی۔ یہ ایک تکلیف دہ فہرست ہے جس میں بہت سے سیاست دان کٹھ پتلیوں کے طور پر نمودار ہوتے ہیں، جنہیں کبھی کبھار مصنوعی ذہانت کے ذریعے زندہ کیا جاتا ہے اور پھر ناکارہ چیزوں کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ شنید ہے کہ کٹھ پتلیوں کی تیاری کا یہ دھندا اب بھی جاری ہے۔ کٹھ پتلیوں کی تیاری کو کنٹرول کرنے والے بارہا امریکی سیاسی نظریہ دان ہنری کسنجر کی اس بات کو درست ثابت کرتے ہیں کہ 'غیر قانونی کام ہم فوراً کر لیتے ہیں۔ غیر آئینی کام کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے'۔

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان میں ملک گیر مقبول سیاست کا دور عملی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے ماضی میں تمام صوبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، ان کو اس طرح تقسیم کر دیا گیا ہے کہ آسانی سے قابو کی جا سکیں۔ ایک مقبول سیاست دان اور قومی رہنما کو تیار کرنے کا حالیہ تجربہ مہلک اثرات دکھا کر ناکام ہو چکا ہے۔ بنیادی طور پر اتحادوں کی سیاست ہی اب آگے بڑھنے کا واحد راستہ نظر آتا ہے۔ تاہم ایک سیاسی جماعت اب بھی اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کے لئے پرامید ہے بشرطیکہ اس کا لیڈر خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آ جائے۔

حتمی سرکاری نتائج سے قطع نظر 2018 کی انتخابی مشق کا مقصد عمران خان اور ان کی پارٹی کو قومی سطح کی قوت کے طور پر ابھارنا نہیں تھا۔ مقصد نواز شریف کو نیچے گرانا تھا۔ اس کارروائی سے متعلق واقعاتی ثبوت جا بجا موجود ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین میں سے بھی بہت سے لوگ سرعام اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اپنی بات منوانے پر مبنی سیاست اور دو مرتبہ برطرف کیے جانے کے باوجود سیاسی قوت کے طور پر ختم نہ ہونا طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ آئندہ انتخابات میں نواز شریف یہ ثابت کرنے کے لئے ایک آخری موقع حاصل کرنا چاہیں گے کہ ان کے ساتھ بلاوجہ زیادتی کی گئی تھی۔ لندن کے ماربل آرچ کے قریب اپنے بیٹے کے کاروباری دفتر میں جہاں وہ دن کا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں، ان سے ملاقات کرنے والے بہت سے لوگ ان کی منتقم مزاجی کی بات ضرور کرتے ہیں۔

لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ پاکستان مسلم لیگ ن کو سردست جو سب سے بڑی مشکل درپیش ہے وہ صوبہ پنجاب میں ایک ایسی فتح حاصل کرنا ہے کہ انہیں صوبے اور مرکز میں حکومتیں بنانے میں چھوٹی سیاسی جماعتوں کی کم سے کم مدد درکار ہو۔ جو لوگ پاکستان کو دہائیوں سے ایک درجن یا اس سے زیادہ صوبوں میں تقسیم کرنے کی خواہش رکھتے تھے مگر اس میں ناکام رہے وہ کم از کم اس حد تک کامیاب ہو چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو چھوٹی چھوٹی علاقائی اکائیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پنجاب اس کی ایک مثال ہے۔ جنوبی اور شمالی اضلاع کے سیاست دان ماضی میں اپنے مفادات کے تحت نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ملاتے اور الگ ہوتے رہے۔ نواز شریف نے بنیادی طور پر صوبہ پنجاب کے وسطی اضلاع میں آباد شہری کاروباری طبقے کی نمائندگی کی ہے۔ تاہم نواز شریف نے جنوب میں ساہیوال اور شمال میں جہلم سے آگے بھی ووٹ بینک بنایا ہے۔ 1980 کی دہائی میں ان کا مقصد پیپلز پارٹی کی ملک گیر مقبولیت کا مقابلہ کرنا تھا۔ بعد میں وہ ایک آزاد سیاست دان کے طور پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

نواز شریف کی جماعت نے ماضی میں سنگین حالات کا سامنا کیا ہے۔ تاہم اب اسے جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ ماضی کی نسبت غیر معمولی اور زیادہ کٹھن ہیں۔ بنیادی سوال جو حتمی جواب کا متقاضی ہے وہ یہ کہ کیا نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے، اور اگر آئیں گے تو کب؟ 2019 میں انہوں نے طبی مسائل کے باعث سیاست سے 'رخصت' لے کر ملک چھوڑ دیا تھا اور تب سے وہ لندن میں قیام پذیر ہیں۔ انہوں نے سیاست اپنی بیٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے ضمنی انتخابات کے دوران نہایت جوش و خروش سے پارٹی کی قیادت کی۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کا جھگڑا منظر عام پر آیا تو بھی نواز شریف پارک لین میں جمے رہے۔ انہوں نے تب بھی پاکستان واپس آنے میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی جب ان کے بھائی کو پی ڈی ایم اتحاد کے تحت قائم ہونے والی حکومت میں وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔

عام خیال یہی ہے کہ نواز شریف کو تب واپس آنا چاہئیے جب انتخابات میں چند ہی ہفتے رہ گئے ہوں تاکہ انہیں بے رحم میڈیا کا کم سے کم سامنا کرنا پڑے۔ ایک اور قابل فہم وجہ ان لوگوں کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا ہے جنہوں نے 2017 میں ان کی برطرفی کا منصوبہ بنایا تھا۔ نواز شریف کو امید ہے کہ عدالتی مقدمات سے انہیں بریت مل جائے گی اور یوں انہیں باعزت واپسی کی اجازت مل سکے گی۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان کی واپسی کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ اپنے بھائی کو دوبارہ سے وزیر اعظم منتخب کروا سکیں یا وہ خود وزیر اعظم بننا چاہیں گے؟ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دونوں بھائیوں کے مابین نااتفاقی کو پسند کرتی ہے اور چھوٹا بھائی اپنی لچک اور درگزر پر مبنی فطرت کے باعث اسٹیبلشمنٹ کا منظور نظر ہے۔ تاہم پارٹی کارکنان سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کے سر پر الیکشن جیتنا ممکن نہیں۔ 'شہباز صاحب ایک اچھے پرفارمر ضرور ہیں مگر وہ پارٹی کو انتخابات نہیں جتوا سکتے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عمران فیکٹر ابھی بھی مؤثر ہے۔ ن لیگ، ووٹرز اور حامی جلد از جلد بڑے میاں صاحب کو پھر سے ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں'۔ یہ باتیں حالیہ دنوں میں ن لیگ کے چار وزرا نے مجھ سے کی ہیں۔

کیا عدالتیں نواز شریف کو انتخابات سے پہلے بے قصور قرار دے دیں گی اور انہیں ایک بے گناہ شخص کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ انہیں الیکشن لڑنے دے گی؟ یہ سنجیدہ سوالات ہیں جن کے جوابات غیر واضح ہیں۔ لیکن یہ سوالات نواز شریف کے بارے میں ہیں، ان کی پارٹی کے بارے میں نہیں جسے آنے والے چند مہینوں میں چومکھی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑا سیاسی چیلنج موجودہ اتحادی آصف علی زرداری کی جانب سے آئے گا جو بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنوانے کے مشن پر ہیں۔ بلاول کی تربیت اگرچہ بہت اچھی ہوئی ہے مگر کیا آصف زرداری جو حکمت عملی کے ماہر ہیں، اپنے بیٹے کو خون کے پیاسے مگرمچھوں سے بھرے سیاست کے دریا میں اترنے دیں گے؟ بلاول کے بجائے وہ خود کو کیوں نہیں پیش کر دیتے؟ حالیہ دنوں میں وہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے سیاست دانوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہے ہیں۔ اگر وہ اپنے سرکردہ پنجابی ساتھیوں کے لئے ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے بھی کچھ نشستیں جیت لیتے ہیں تو وہ مسلم لیگ ن کے منصوبوں کے لئے ایک بھاری خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیا ن لیگ بدلے میں پیپلز پارٹی سے کراچی میں چند سیٹوں کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی کی صورت میں ایک اور سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان دونوں اپنے سابق سیاسی باس کو اپنی طاقت کا ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش رکھتے ہیں جو کہ وزارت عظمیٰ کے بعد سب سے طاقتور سیاسی عہدہ ہے۔ اگر استحکام پاکستان پارٹی قومی اسمبلی کی 10 سے 15 اور صوبائی اسمبلی کی 20 سے 25 نشستیں جیت جاتی ہے تو وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ مطالبہ ماننے میں کوئی عار نہیں ہوگا بشرطیکہ انہیں اس سے مرکز میں حکومت بنانے میں مدد ملتی ہو۔ مگر کیا ن لیگ بھی ایسا کرنے کی ہمت دکھائے گی؟ ہرگز نہیں۔ وہ ایسی مرکزی حکومت نہیں چاہے گی جس میں پنجاب اس کے پاس نہ ہو۔ اگر نواز شریف کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ جیت جاتے ہیں تو ن لیگ اپنا 1997 والا حکومتی ماڈل دہرانا پسند کرے گی جس میں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حمایت حاصل کرنے کے لئے نواز شریف مولانا فضل الرحمان کو صدر بنانے کی پیش کش بھی کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے الیکٹ ایبلز ہمیشہ منافع بخش عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں۔

کاغذ پر یہ مقابلہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین دو طرفہ لڑائی نظر آ رہا ہے۔ تاہم ن لیگ کے سامنے اور بھی بہت سے خطرات منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کیا ان انتخابات میں عمران خان اور ان کے لاکھوں سپورٹرز کا بھی کوئی کردار ہو گا یا عمران خان اس سے پہلے نااہل ہو جائیں گے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو وزیر اعظم دیکھنا چاہے گی یا وہ انہیں شہباز شریف کے حق میں دستبردار ہو کر سیاست سے ریٹائر ہونے کا کہے گی؟ کیا مریم نواز کو کوئی اہم کردار ملے گا یا انہیں پیچھے ہٹنے کو کہا جائے گا؟ کیا پاکستان مسلم لیگ ن اپنے بل بوتے پر پنجاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی یا اسے استحکام پاکستان پارٹی میں شامل نئے اور مال دار سیاست دانوں کی حمایت درکار ہوگی؟ گجرات اور شمالی اضلاع کے پرانے محافظ کس جانب جھکاؤ دکھائیں گے؟ سوال تو بہت سارے ہیں مگر ان کے جوابات محض اندازوں پر مبنی ہیں۔



عامر غوری کا یہ مضمون The News On Sunday میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عامر غوری جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی ہیں۔