مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان نے چودھری پرویز الہی کو صرف استعفیٰ دکھایا ہے۔ کیونکہ عثمان بزدار ابھی تک بطور وزیراعلیٰ اپنے کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر اگلے 24 گھنٹے میں عثمان بزدار نے گورنر کو اپنا استعفیٰ نہ دیا تو پتا چل جائے گا کہ چودھری برادران کہاں کھڑے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر چودھری برادران نے متحد رہنا ہے تو عمران خان کا آپشن درست نہیں ہے۔ اگر انہوں نے آپس میں تقسیم پیدا کرنی ہے اور اپنی جماعت کے دو حصے کرنے ہیں تو یہ اور بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے تحت وزیراعلیٰ اپنا استعفیٰ گورنر کو پیش کرتا ہے۔ گورنر اس استعفے کو نوٹیفائی کرتا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نئے چیف منسٹر کے انتخاب کا شیڈول جاری کرتا ہے۔ ابھی تک گورنر پنجاب چودھری سرور کو سردار عثمان بزدار کا کوئی استعفیٰ موصول نہیں ہوا۔ گورنر پنجاب سے میری اس معاملے پر خود بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب استعفیٰ ملے گا، تب ہی اسے نوٹیفائی کر سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چودھری پرویز الہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بننے کیلئے 186 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے ترین گروپ، علیم خان گروپ، ہم خیال گروپ سمیت دیگر کی حمایت ان کو درکار ہوگی۔ ان کیلئے یہ نمبرز پورے کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان نے چودھریوں سے جھوٹ بولا ہے کیونکہ واقعی اگر عثمان بزدار نے استعفیٰ دیا ہوتا تو ان کی آج اس سلسلے میں گورنر پنجاب سے ضرور ملاقات ہوتی۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ان کی ناصرف کابینہ بلکہ پوری حکومت ختم ہو جاتی۔
متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست پر بات کرتے ہوئے نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم محسوس کر رہی ہے کہ اسے چودھریوں کی جانب سے دھوکا دیا گیا۔ کیونکہ ان کے مطابق ساڑھے تین بجے تک تو ق لیگی قیادت کی ہمارے ساتھ میٹنگ تھی۔ یہ اتفاق ہوا تھا کہ سب نے مل کر اعلان کرنا ہے۔ لیکن میٹنگ کے دوران چودھری پرویز الٰہی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے، بعد ازاں پتا چلا کہ وہ تو بنی گالا گئے ہیں۔
نادیہ نقی نے بتایا کہ ایم کیو ایم والے اتنے ریلیکس تھے کہ وہ مری جانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اچانک خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ چودھری پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم جس قسم کی جماعت بن کر رہ گئی وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی ہے۔ وہ ہر وقت کسی اشارے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ کہیں کوئی اشارہ نہ آ جائے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح مسلم لیگ ق کے اندر ہمیں تقسیم نظر آتی ہے بالکل اسی طرح ایم کیو ایم کے اندر بھی ہے۔ کچھ رہنمائوں کا کہنا ہے کہ چونکہ اب ق لیگ نے حکومت کیساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اب ہمیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ تاہم بعض کا کہنا ہے کہ نہیں ہمیں ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی سائیڈ میں بیٹھ گیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اپنی مرضی کا کھیل کھیلو تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ آپ کو کسی قسم کا اشارہ دے گا، لہذا ہمیں اپنی مرضی سے چلنا چاہیے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات طے ہے کہ ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا تو وہ وفاق میں نہیں، صوبے کی حد تک پیپلز پارٹی سے ہو سکتا ہے۔ یہی چیز ایم کیو ایم والے ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کیساتھ ہم جو بہت آگے تک جا چکے ہیں، اس کا کیا ہوگا؟
نادیہ نقی نے کہا کہ بات یہاں اٹکی ہوئی ہے کہ انھیں یقین نہیں آ رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعد میں اگر سب اپنے وعدے سے پلٹ گئے اور کہا کہ جی یہ صحیفہ تو نہیں تھا، پہلے ہم نے معاہدہ کیا تھا لیکن اب اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ اس کیلئے جن سے وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی مہر ثبت کر دیں، وہ ابھی تک سامنے نہیں آ رہے۔ جس دن یہ ہو گیا، ایم کیو ایم اعلان کر دے گی۔