حکومت کیخلاف اکھٹی تمام اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ ق کے لیڈر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ کیسے حکومت بنانی ہے؟ کتنے عرصے کیلئے بنانی ہے؟ سب کچھ طے ہو چکا ہے۔
یہ بات مزمل سہروردی نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز ہی وزیراعلیٰ ہونگے۔ ترین گروپ بھی اس پر راضی ہے۔ آج حمزہ شہباز کی لاہور میں ترین گروپ سے مکمل ملاقات ہو چکی ہے۔ جہانگیر ترین کے گروپ نے ٹکٹوں اور حکومتوں میں وزارتوں کیلئے یقین دہانی مانگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلی حکومت کا نقشہ 90 فیصد تک طے ہو چکا ہے۔ ہر بندے کو اس کا اگلا رول بتا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں باپ پارٹی، سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی اسمبلیوں کی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان کا بھی اسمبلیاں توڑنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ ورنہ ان کے پاس پچھلے 15 دن موجود تھے۔ وہ عدم اعتماد آنے سے پہلے اسمبلیوں کو توڑ کر ملک کو نئے انتخابات کی طرف لے کر جا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے مجھے ایسا نہیں لگتا کہ وہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی بھی توڑیں گے۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ تاہم قومی اسمبلی کے انتخابات قبل از وقت ہو جائیں گے۔
پروگرام کے دوران شریک گفتگو وقار ستی نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حتمی ملاقات ہو چکی ہے۔ خبروں میں بہت سی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ ایم کیو ایم والے بڑی ڈیمانڈز رکھ رہے ہیں لیکن آج جو دونوں جماعتوں کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس میں ایسی باتوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وقار ستی کا کہنا تھا کہ علیم خان کو راضی کر لیا جائے گا یا نہیں؟ اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا قبل ازوقت ہوگا لیکن اپوزیشن کی جو قیادت اس بات کا برملا اظہار کر رہی ہے کہ ہم نے ق لیگ کو کمٹمنٹ دیدی ہے، چودھری پرویز الہیٰ ہی صوبہ پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ ہونگے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے دھمکی اپوزیشن کو نہیں کسی اور کو دی ہے کہ اگر میری حکومت جاتی ہے تو میں آپ کیلئے بہت مشکلات پیدا کر دوں گا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ جس کو یہ دھمکی دی گئی ہے وہ اسے کس طرح لیتے ہیں۔ عمران خان کے جلسے کی کال کے جواب میں اپوزیشن جماعتیں ان سے زیادہ لوگ اکھٹے کر سکتی ہیں لیکن اس صورت میں تصادم کا خطرہ ہے۔
نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان میں اس بات پر مکمل اتفاق کر لیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے گی۔ صرف زبانی جمع خرچ پر ایم کیو ایم وعدوں کو تسلیم کرنا نہیں چاہ رہی تھی، اس لئے تمام قانونی پہلوئوں پر بھی بات کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ایم کیو ایم میں کوئی واضح لیڈرشپ نہیں ہے، اس لئے ان کو گارنٹی چاہیے تھی تاکہ وہ اپنے عوام میں جا کر بتا سکیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی کا دوبارہ ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
ایک اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ میں سوچ رہی تھی کہ 28 مارچ کو تحریک انصاف کا جلسہ کہیں معاملے کو اپریل تک لے جانے کی حکمت عملی تو نہیں ہے، اگر ایسا ہوا تو پھر یہ اتحادی پیچھے جا سکتے ہیں۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وقار ستی کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب پارلیمںٹ کے مشترکہ اجلاس میں اراکین پورے کرنے ہوتے تھے تو باقاعدہ ٹیلی فونز کئے جاتے تھے، تھوڑی آنکھیں بھی دکھائی جاتی تھیں لیکن اس وقت ایمپائر بالکل سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اتحادی انھیں پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ لیکن انھیں ہاں ہو رہی اور نہ ہی ناں۔ جو فائنل فیصلہ ہوگا، وہ اسی کے پیچھے جائیں گے۔
انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ فائنل نہ ہو جائے۔ ہم نے 2002ء میں دیکھا تھا کہ واضح اپوزیشن کی اکثریت تھی لیکن صرف ایک ووٹ سے جمالی صاحب وزیراعظم بن گئے تھے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ لوگ عمران خان سے تنگ ہیں، حکومت کو جانا چاہیے یہ الگ بات ہے لیکن ایسا ہوگا یا نہیں، اس بارے میں آخری منٹ تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔