ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ کا اصل حقدار کون ہے؟

ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ کا اصل حقدار کون ہے؟
یہ ستر کی دہائی کے ان دنوں کی بات ہے جب بھارت اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا اور اس کو اس چیز کا یقین ہو چکا تھا کہ نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ایٹمی قوت نہیں بن سکے گا اور ہمیشہ کے لیے یا تو بھارت کا غلام بن جائے گا یا پھر بھارت کی طفیلی ریاست بن کر رہے گا۔ اس بات میں کافی حد تک سچائی بھی تھی کہ سیاستدان اس وقت بھی اپنے ذاتی مفادات کے تابع ایٹمی پروگرام کو بھول کر بیٹھے تھے۔

ایسے کڑے وقت میں ریاست کے اصل مقتدر حلقوں نے فیصلہ کیا کہ اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔ فوری طور پر یہ طے کیا گیا کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں دنیا کے سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان بلا کر ان کی ملاقات سیاستدانوں سے کروا کر یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے ایٹم بم ڈاکٹر عبدالقدیر بنائیں گے جبکہ اصل ہیروز کا نام شاید تاریخ کبھی جان ہی نہ سکے۔

ایٹم بم بنانے کے لیے جس قسم کی عمارتوں کی ضرورت تھی، پاکستان میں صرف ایک ایسا افسر تھا جو کہ ان عمارات کو بنا سکتا تھا، لیکن اگر اس کو ڈائریکٹ اس کام پر لگایا جاتا تو دنیا کو شک ہو جاتا، لہذاٰ دنیا کو احمق بنانے کے لیے اس افسر کو رشوت خوری کے الزام میں نوکری سے بری طرح ذلیل کر کے نکالا گیا اور اس سے حلف لیا گیا کہ وہ کبھی بھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھائے گا۔ قوم کے اس ہیرو نے یہ الزام اپنے سر لیا مگر اپنی پوری توانائی ایٹمی ریکٹر بنانے پر لگا دی۔ وہ اپنے کام میں اس بری طرح مگن ہو گیا کہ اس کا اکلوتا بیٹا بدکردار ہوتا چلا گیا بلکہ منشیات کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہو گیا۔ لیکن اس بدکردار بیٹے کے عظیم باپ کی وجہ سے اس سے چشم پوشی کی گئی، خیال یہی تھا کہ عظیم باپ کا بیٹا بھی آگے چل کر ملک و قوم کی خدمت کرے گا۔ابھی اس کے کھیل کود کے دن ہیں اور لڑکے جوانی میں ایسی شرارتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔

واقفانِ حقیقت بتاتے ہیں کہ ایٹمی ریکٹر کی تعمیر کے دوران ایسا وقت بھی آیا کہ ضروری سازوسامان اور میٹریل خریدنے کے لیے حکومت کے پاس پیسے ختم ہو گئے تو اس عظیم شخص نے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر میٹریل خریدا مگر تعمیر نہیں رکنے دی۔ جب حکومت کے پاس پیسے آئے تو اس شخص کو نقد ادائیگی کی گئی مگر بدقسمتی سے وہ نوٹ تابکاری سے آلودہ تھے، جس کی وجہ سے اس عظیم شخصیت کی زوجہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں اور چند سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔

اس عظیم شخص کا بیٹا جو اپنی ماں کی وفات کے وقت بیرون ملک کرکٹ کھیل رہا تھا، اس کو واپس بلایا گیا اور اس سے معافی مانگی گئی اور اس سے بھی یہ حلف لیا گیا کہ وہ کبھی بھی کسی کے سامنے ملک و قوم کے لیے دی گئی اتنی بڑی قربانی کا ذکر نہیں کرے گا۔

انیس سو اٹھانوے میں جب بھارت نے دوبارہ ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کیں تو اس وقت کے سیاستدان حکمران کو حکم دیا گیا کہ وہ بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا اعلان کرے مگر حکمران سیاستدان اپنے مفادات کے لیے دھماکے کرنے سے کترا رہا تھا۔ لہذاٰ اسی عظیم شخصیت کے بیٹے کو، جو کہ اس وقت تک سیاست میں لانچ کر دیا گیا تھا، کہا گیا کہ وہ حکمران سے بات کرے۔ اس عظیم سپوت نے حکمران کو دھمکی دی کہ اگر تم نے آج ایٹمی دھماکوں کا اعلان نہ کیا تو میں اپنے سپورٹرز کی سونامی کے ساتھ تمہیں ختم کر کے رکھ دوں گا۔وزیراعظم نے ڈر کر دھماکوں کا اعلان کر دیا۔

وقت گزرتا رہا، ستر کی دہائی میں بدنام ہونے والے راشی افسر کا بیٹا آج ملک کا سیاستدان حکمران ہے لیکن اپنے حلف پر اس طرح سے قائم ہے کہ اس نے ایٹمی دھماکوں کے یادگاری دن یوم تکبیر پر بھی قوم کو مبارکباد نہیں دی کہ کہیں یہ راز نہ کھل جائے کہ ایٹمی دھماکوں کا اصل کریڈٹ اس کو یعنی عمران خان کو جاتا ہے۔