یوم تکبیر پر کسی کو چاغی کے افلاس زدہ بلوچ بھی یاد آئیں گے؟

'گھاس کھا کر بم بنانے والے' ایٹم بم تو بنا گئے مگر اُن کی آج کی نسلوں کو خبر تک نہیں کہ چاغی کے پہاڑوں میں اب گھاس بھی نہیں اگتی کہ بلوچ اپنی جڑی بوٹیوں پر گزارا کر سکیں۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک تو ایٹمی پاور بن گیا مگر چاغی افلاس و غربت سے بھی آگے نکل گیا۔

یوم تکبیر پر کسی کو چاغی کے افلاس زدہ بلوچ بھی یاد آئیں گے؟

گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع چاغی سے تعلق رکھنے والے چند ڈرائیورز کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل تھی جس میں اُن کے پاؤں کے چھالے دکھائے جا رہے تھے۔ ڈرائیورز کے مطابق سکیورٹی فورسز نے انہیں روک کر ننگے پاؤں تپتی ریت پر کھڑا کیا تھا۔ بلوچستان میں سکیورٹی چیک پوسٹوں پر ہتک آمیز، اذیت ناک اور انتہائی جابرانہ رویوں کو برداشت کرنا تو معمول کے مطابق ہے۔ کل ہی سی پیک کے شہر گْوادر میں سید ہاشمی ایئرپورٹ روڈ پر دو مقامات پر اس ہیٹ ویو اور انتہائی گرمی کے باوجود وی آئی پی موومنٹ کے نام پر سکیورٹی فورسز نے شہریوں کو کڑکتی دھوپ میں روک کر گھنٹوں کھڑا کیے رکھا۔ مکُران سے کراچی جانے والی بسیں اور ٹرانسپورٹ مالکان گذشتہ ایک ہفتے سے انہی رویوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

مگر چاغی کا ذکر آج اس لیے کہ آج 28 مئی کو ملک کے تمام میڈیا چینلز، سرکاری سطح پر منعقدہ پروگرامز کے بڑے بڑے بینرز اور اخبارات پر چاغی کے راسکوہ پہاڑ کی تصاویر کے ساتھ یومِ تکبیر لکھا نظر آئے گا۔ آج کے دن تقریباً اس ملک کے بڑے صوبوں کے شہری کہیں نہ کہیں چاغی کا نام ضرور سنیں گے کیونکہ آج ہی کے دن 28 مئی 1998 کو چاغی کی سرزمین پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے ملک ایٹمی قوت بنا تھا۔ اس دن کی مناسبت سے اب ہر سال 28 مئی کو یوم تکبیر منایا جاتا ہے۔ اسلام آباد و لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں کے لوگ سینہ چوڑا کر کے فخر مناتے ہیں کہ وہ بھی سپر پاور ملک کے شہری ہیں۔ سرکاری سطح پر مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، ٹی وی پروگرامز میں اس دن کی مناسبت سے خصوصی پروگرامز اور اخبارات پر سرکاری اشتہارات و کالم چھپتے ہیں مگر چونکہ بلوچستان اور خصوصاً چاغی بہت دور کسی مریخ نامی سیارے پر واقع ہیں اسی لیے وہاں کوئی کیمرہ پہنچتا ہے اور نا ہی قلم۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

آج جب لاہور و اسلام آباد میں نعرہ تکبیر کے ساتھ ناچ، بھنگڑے اور ملی نغموں پر فخریہ حب الوطنی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہو گا وہیں چاغی میں راسکو پہاڑ کے دامن میں کہیں جھونپڑیوں کے رہائشی بلوچ اس شدید گرمی میں پانی کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں یوم تکبیر کے پروگرامز ہوں گے لیکن چاغی میں پتہ نہیں اب تک سرکاری سکولوں میں نصاب کی کتابیں پہنچی بھی ہوں گی یا نہیں؟ بدقسمت چاغی کے مکین آج جلدی بیماریوں، بھوک، پسماندگی اور اس شدید گرمی میں سرحد پر سمگلنگ کے نام پر دو وقت کی روٹی کے لیے نہ جانے کس چیک پوسٹ پر ننگے پاؤں سزا بھگت رہے ہوں گے لیکن اُن کے پہاڑوں کی تصاویر ایئر کنڈیشنڈ ہالز اور سٹوڈیوز میں آویزاں ہوں گی۔

بلوچستان ریاست کے لیے ہمیشہ سے ایک تجربہ گاہ رہا ہے۔ اس تجربہ گاہ میں سردار، میر، سیاسی جماعتیں تو بنتی رہتی ہیں بلکہ بڑے بڑے پروجیکٹس بھی اسی تجربہ گاہ میں تیار ہوتے ہیں۔ تو ریاست نے ‎بلوچستان نامی لیبارٹری میں آج کے دن ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس تجربے کے بعد راولپنڈی و اسلام آباد میں آج نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور ‎ چاغی کینسر ہسپتال کے لیے پکار رہا ہے۔

'گھاس کھا کر بم بنانے والے' ایٹم بم تو بنا گئے مگر اُن کی آج کی نسلوں کو خبر تک نہیں کہ چاغی کے پہاڑوں میں اب گھاس بھی نہیں اگتی کہ بلوچ اپنی جڑی بوٹیوں پر گزارا کر سکیں۔ چاغی میں آج اس ملک کے نمبر ون شہریوں کو حاصل سہولیات، ناچ، بھنگڑے اور تقریبات کے برعکس جان لیوا بیماریاں ہیں، بھوک و غربت ہے۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک تو ایٹمی پاور بن گیا مگر چاغی افلاس و غربت سے بھی آگے نکل گیا۔ اسی لیے آج کے دن یہاں بلوچستان میں کوئی یوم تکبیر نہیں مناتا بلکہ یوم افلاس، یوم احساس محرومی اور یوم کینسر منایا جاتا ہے۔ یہاں ایٹمی دھماکوں کے بعد نعرہ تکبیر بلند نہیں ہوتا بلکہ 'کینسر کا ہسپتال دو'1 کا نعرہ لگتا ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالب علم ہیں۔