بلوچستان کو بنیادی سہولیات دیں، اسے 'ابابیلوں' کی آزمائش گاہ نہ بنائیں

بلوچ گذارش کر کر کے تھک چکا لیکن پھر بھی جو بلوچ کے حصّے میں آتا ہے وہ ہے بم۔ تعلیمی ادارے، صحت کے بنیادی مراکز اور روزگار نے بلوچستان نہ جانے کی اس لیے قسم کھا رکھی ہے کیونکہ وہ بلوچستان کو پرخطر و نوگو ایریا سمجھتے ہیں۔

بلوچستان کو بنیادی سہولیات دیں، اسے 'ابابیلوں' کی آزمائش گاہ نہ بنائیں

اگر پاکستان دفاعی طاقت کا مظاہرہ ڈیرہ بگٹی میں نہ کرتا تو کیا ہوتا؟ اگر دفاعی طاقت کے بجائے ڈیرہ بگٹی کو کچھ اور ملتا تو کیسا لگتا؟

مثلاً کوئی ہسپتال ڈیرہ بگٹی کو دیا جاتا تو کیا بہتر نہیں تھا؟ دو سال پہلے ڈیرہ بگٹی کے پیلاوغ میں ہیضے کی مرض پھیل چکی تھی جب ہم نے پتہ لگانا شروع کیا تو نتیجہ برآمد ہوا کہ پانی پینے کے قابل نہیں۔

میں سوچ رہا تھا ڈیرہ بگٹی یا پیلاوغ کے لوگوں نے ہیضے کی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ادویات اور ڈاکٹر کا مطالبہ کیا تھا یا شاید اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لیے صاف پانی طلب کیا تھا۔ وہاں اعلیٰ عہدیدار بھی گئے، شاید کسی صاحب کے کان میں صاف پانی کے بجائے 'ابابیل' کے الفاظ پہنچے ہوں۔

وگرنہ اس حسین زمین پر تادمِ تحریر میں نے بم کی خواہش کبھی نہیں سنی تھی۔ کسی نے کبھی بھی ریلی نہیں نکالی، اس قسم کا نعرہ نہیں لگایا کہ 'پانی نہیں ابابیل دو' یا ان جیسی کوئی تقریر کی ہو۔ بم جبراً دیا گیا، خواہش کی بنیاد پر نہیں۔

اب میں سوچ رہا ہوں کوئی بم کیوں مانگے گا، یہاں ہر کوئی بم کی بُو و آواز سے کتراتا ہے، دور بھاگتا ہے۔ بم فائر کرنے والا خود دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کے بم کی آواز نہ سننے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی بم کی خواہش کیسے رکھے گا بھلا۔

میڈیا کے مطابق بم جہاں گرا، آس پاس تقریباً 500 میٹر دوری پر آبادی ہے، کچے مکانات ہیں، بھوک و افلاس سے پریشان لوگ زندگی کے دن رات گزار نہیں بلکہ گِن رہے ہیں۔

اس گاؤں میں حسب معمول کوئی سکول نہیں، اگر عمارت موجود ہے تو ٹیچر نہیں، شعبہ صحت کے بنیادی مرکز نہیں، ڈاکٹر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ٹیچر کیوں دستیاب نہیں ہوتے جبکہ بم با آسانی بن بلائے کیوں آ جاتا ہے، یہ معمہ ہے۔

ڈیرہ بگٹی جس کا آبائی علاقہ ہے وہ فی الحال نگران وزارت داخلہ کا مزہ لے رہے ہیں۔ داخلہ کی صورت حال کے ذمہ دار ڈیرہ بگٹی کو تجربہ گاہ نہ بنانے سے یا تو ہچکچاتے ہیں یا ان کے بس کی بات نہیں۔

بم نے چنانچہ فی الحال جانی نقصان کی اطلاع نہیں سنی لیکن تابکاری کے نقصانات سے بلوچ ڈرتا ہے کیونکہ بلوچ بھگت چکا ہے۔ اگر خدانخواستہ جانی نقصان ہوا تو سرفراز بگٹی کو ووٹ کون دے گا؟

اگر لوگوں کے لیے نہیں سوچنا تو کم از کم سرفراز بگٹی کو اپنے لیے تو سوچنا ہوگا۔

سرفراز صاحب بم کی آواز بعد از تابکاری کے بدلے ایک کالج دیتے تو کیا برا ہوتا۔ (یونیورسٹی کی خواہش وہی کرے گا جس کے پاس کالج تک کی تعلیم ہو)۔

چاغی یوم تکبیر کی پیداوار ہے لیکن وہاں بھی صرف تابکاری کے اثرات سے کینسر کے مریض پیدا ہوتے ہیں، ماسٹرز کرنے والے نوجوان نہیں۔

بلوچ گذارش کر کر کے تھک چکا لیکن پھر بھی جو بلوچ کے حصّے میں آتا ہے وہ ہے بم۔ تعلیمی ادارے، صحت کے بنیادی مراکز اور روزگار نے بلوچستان نہ جانے کی اس لیے قسم کھا رکھی ہے کیونکہ وہ بلوچستان کو پرخطر و نوگو ایریا سمجھتے ہیں۔

ایسا نہ ہو کل کلاں کوئی بلوچ یا ڈیرہ بگٹی و چاغی کا نوجوان اپنا علاقائی پتہ لکھتے لکھتے یہ نہ لکھ بیٹھے کہ 'سب تحصیل پیلاوغ، ضلع ڈیرہ بگٹی، صوبہ بمستان یا ضلع و صوبہ دونوں بمستان'۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔