باپ پارٹی سے ن لیگ میں آنے والے سیاسی پرندے یہاں ٹِک پائیں گے؟

بلوچستان عوامی پارٹی کے نومنتخب صدر نوابزادہ خالد حسین مگسی کہتے ہیں باپ پارٹی قائم و دائم رہنے کے لیے بنی ہے۔ ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں، جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں وہ ضرور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔

باپ پارٹی سے ن لیگ میں آنے والے سیاسی پرندے یہاں ٹِک پائیں گے؟

ملک میں آئندہ برس 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی بلوچستان کے سرد ہوتے موسم میں جہاں سیاسی درجہ حرارت گرم ہونے لگا ہے وہاں صوبے میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ صوبہ کے سابق ارکان اسمبلی اور سیاسی شخصیات نے ایک بار پھر ملکی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ الیکشن 2018 سے قبل اچانک نمودار ہو کر صوبے میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے والی بلوچستان عوامی پارٹی کا شیرازہ ایسا بکھرا کہ سابق اراکین اسمبلی دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پیارے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے 2018 کے عام انتخابات کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی سب سے زیادہ سیٹیں باپ پارٹی نے حاصل کیں۔ انتخابی نشان گائے پر الیکشن لڑنے والی پارٹی نے 2018 میں براہ راست 51 حلقوں میں سے 49 حلقوں پر الیکشن لڑا اور صوبے میں سب سے زیادہ 15 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ الیکشن کے بعد 9 آزاد امیدوار بھی پارٹی میں شامل ہو گئے جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 24 ہو گئی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی نے 4 لاکھ 44 ہزار 257 ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی کی 16 سیٹوں پر 15 امیدواروں نے الیکشن لڑا جن میں سے 4 سیٹیں جیت پائے۔ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو 3 لاکھ 18 ہزار 808 ووٹ ملے۔ خواتین کو ملا کر قومی اسمبلی میں باپ پارٹی کے ارکان کی تعداد 5 ہو گئی اور دو سینیٹ الیکشن کے دوران بلوچستان عوامی پارٹی نے سینیٹ کے لیے 13 سینیٹر منتخب کیے۔

حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والوں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان، سینیئر سابق وزیر نور محمد دمڑ، سردار عبدالرحمٰن کھیتران، محمد خان لہڑی، سردار مسعود لونی، ربابہ بلیدی، شعیب نوشیروانی، میر عاصم کرد گیلو، نوابزادہ جنگیز مری اور دوستین ڈومکی شامل ہیں۔ ان میں سے ربابہ بلیدی خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔ کچھ ماہ قبل بلوچستان عوامی پارٹی سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے میر سلیم خان کھوسہ اور میر فائق جمالی بھی مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق مرکزی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ 2013 میں جب سیاست شروع کی تو مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور الیکشن میں دو سیٹیں جیت کر آیا تھا۔ اس وقت حکومت بنانے کیلئے ایم این ایز کی بڑی ضرورت تھی۔ پارٹی نے منسٹر بنایا حالانکہ میری ڈیمانڈ نہیں تھی۔ 2016 میں مسلم لیگ ن کی لوکل قیادت سے اختلافات پیدا ہوئے اور مجبوراً پارٹی کو چھوڑنا پڑا۔ اس وقت ن لیگ چھوڑنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم ایک ایسی پارٹی بنائیں جہاں بلوچستان کے مسائل اور معاملات کو خود آگے لے جائیں۔ تب بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پارٹی میں تقریباً سب کی خواہش تھی کہ پارٹی کا مرکزی صدر بنوں اور میں نے 2018 کے الیکشن میں پارٹی کے تمام معاملات بہت اچھے طریقے سے چلائے۔ ہماری پارٹی نے بلوچستان میں سب سے زیادہ سیٹیں لیں اور تمام ارکان نے اتفاق رائے سے مجھے چیف منسٹر بنایا۔

سابق مرکزی صدر بلوچستان عوامی پارٹی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے باپ پارٹی میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں۔ بلوچستان کے لوگ ڈسپلن کے اندر رہنے کے اتنے عادی نہیں ہیں۔ ہر پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے اور اس پالیسی پر سب چلتے ہیں۔ ٹکٹ کس کو دینا ہے، سینیٹ میں کیا کرنا ہے، کوئی آؤٹ آف وے جاتا ہے تو پارٹی کو ڈسٹرب کرتا ہے، گورنمنٹ کو ڈسٹرب کرتا ہے۔ کم از کم ایگزیکٹو کمیٹی یا سنٹرل کمیٹی اس پہ کوئی ایکشن لے سکتی ہے اور وہ اگر اپنا ایک فیصلہ کر لے کہ فلاں آدمی کو گورنمنٹ میں ہونا چاہئیے اور فلاں کو کیبنٹ میں نہیں ہونا چاہئیے تو اس کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے مگر بلوچستان عوامی پارٹی میں بدقسمتی سے اس کا فقدان تھا۔ باپ پارٹی میں ہر کوئی سمجھتا تھا کہ وہ پارٹی ڈسپلن سے بالاتر ہے، صدر بنا سکتا ہے، پارٹی پالیسی بنا سکتا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا مزید کہنا تھا کہ میں پارٹی کا مرکزی صدر تھا، منتخب وزیر اعلیٰ تھا، آپ پارٹی ڈسپلن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کچھ ارکان اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لاتے ہیں۔ ان میں سے 4 ارکان مخصوص نشستوں پر آئے تھے اور پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی اتنی مجبوری کی حالت میں تھی کہ کوئی ایکشن نہیں لے پاتی۔ اس کے باوجود ہم مشاورتی عمل میں پارٹی لیڈرشپ سے بھی مل رہے تھے، مختلف دوستوں سے بھی مل رہے تھے۔ اگر ہم کہیں نہ بھی جانا چاہتے تو وہ بہت سارے مجبور بھی کر رہے تھے کہ نہیں جی آپ لوگوں کو کہیں جانا چاہئیے تو پھر آخر میں سیاست بھی کرنی ہے، حلقہ کی سیاست کرنی ہے، ایک پلیٹ فارم پہ کرنی ہے۔ ہم نے 3 سال برداشت کیا، کچھ حالات ایسے بنے جن کی وجہ سے متفقہ طور پہ سب کی رائے لی۔ آج بھی میں بڑے کھلے طریقے سے کہوں گا کہ آج بھی کسی شرط یا مطالبے کے بغیر پاکستان مسلم لیگ ن میں دوستوں کے ساتھ شامل ہوں۔ میں ساڑھے تین سال تک وزیر اعلیٰ بلوچستان رہا اور 4 سال وزیر مملکت کی ذمہ داری نبھائی۔ انشاء اللہ جب بھی موقع ملے گا کسی بھی کپیسٹی میں کام کروں گا اور فیڈریشن پارٹی نے سپورٹ کیا تو اچھے انداز میں کام کروں گے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے سابق رہنما اور ممبر صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کھیتران کا کہنا ہے کہ پارٹیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ میرے خیال میں باپ پارٹی رہے گی۔ دو چار پانچ الیکٹ ایبلز آنے والے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی سیٹیں نکال لیں گے۔ جس مقصد کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کہ بلوچستان کے احساس معرومی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے گی، بہت حد تک ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ الحمدللہ 13 سینیٹرز، 5 ایم این ایز اور 24 ایم پی ایز کے ساتھ ملک کی بڑے پارٹیوں میں شمار ہوئی۔ صوبے میں بھی ہم بہتر پوزیشن میں تھے اور پانچ سال کے لیے حکومت بھی بنائی۔ 2 وزیر اعلیٰ اور 2 وزیر اعظم منتخب کیے۔ پہلے منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم عجیب و غریب طبیعت کے مالک تھے۔ جیسے پشتو میں کہتے ہیں کہ میم زبر ٹول آزما کر خود کو عقل کل سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ زمین پر صرف عقلمند میں ہوں، باقی مشورہ کسی کا نہیں لیتے تھے جس کی وجہ سے ہمارے پارٹی کے اندر کچھ اختلافات سامنے آئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم کو بلوچستان کے حقوق دینے چاہئیں تھے مگر انہوں نے نہیں دیے اور فنڈز روکے رکھے۔ اسی طریقے سے بلوچستان کو اس نے کوئی مناسب نمائندگی نہیں دی حالانکہ اس کی لٹکتی ہوئی گورنمنٹ تھی۔ ہماری جماعت جیسی ایک بھی پارٹی الگ ہو جاتی تو اس وقت ان کی حکومت ختم ہو جاتی۔

سابق رہنما باپ پارٹی اور سابق وزیر عبدالرحمٰن کھتیران کا مزید کہنا تھا کہ اب ہمارے سپریم کمانڈر میاں نواز شریف ہیں، وہ تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں، انہوں نے اس عمر میں بہت دکھ جھیلے ہیں، اپنا وطن چھوڑا، اتنے سال تک جلاوطنی کی زندگی گزاری، انہیں اپنی بیگم کی تدفین تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے بہت زیادہ دکھ اٹھائے ہیں۔ اس بار میاں صاحب کی سربراہی میں بلوچستان کی بڑی شخصیات مسلم لیگ ن میں شامل ہوئی ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے الیکشن میں بڑی تعداد میں سیٹیں جیت کر بلوچستان کی محرومیاں دور کریں گے۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے نومنتخب صدر نوابزادہ خالد حسین مگسی کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی قائم و دائم رہنے کے لیے بنی ہے، پارٹی میں ناراض لوگوں سے بات چیت کے لیے دروازے کھلے ہیں، جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں وہ ضرور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔ پارٹی کے سابق صدر عبدالقدوس بزنجو کی صحت ٹھیک نہیں تھی جس پر ان کی رضامندی سے انہیں تبدیل کیا گیا ہے۔ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد پارٹی پوری آب و تاب کے ساتھ انتخابی میدان میں نظر آئے گی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری سینیٹر منظور خان کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی ایک سوچ اور نظریے کے تحت بنائی گئی کہ بلوچستان کی بہترین نمائندگی کی جا سکے۔ گذشتہ 5 سالوں میں بی اے پی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارا مذاق اڑایا گیا، ہمارا نام تک لوگ یاد نہیں رکھتے تھے لیکن ملک کے مشکل سیاسی حالات میں پارٹی نے جس طرح اپنا حصہ ڈالا اس کے بعد وفاق میں ہمیں قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ناراض نہیں تھا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کن وجوہات کی بنا پر پارٹی چھوڑ گئے، پارٹی سے جانے کی وجوہات وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ اگر کوئی ناراض ہے تو وہ پارٹی میں رہ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کر سکتا ہے، ہم انہیں سنیں گے۔ ہماری جو پہچان بی اے پی میں ہے وہ کسی اور جماعت میں نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کے وقت معروضی سیاسی حالات کو دیکھ کر بلوچستان میں اتحاد قائم کریں گے۔

بی اے پی کے صوبائی صدر سردار محمد صالح بھوتانی کا کہنا تھا کہ سابق صدر عبدالقدوس بزنجو پارٹی کے سینیئر رہنما ہیں، وہ کنونشن میں شرکت نہیں کر سکے، کچھ عرصے سے ان کی صحت کے مسائل ہیں۔ ان کی رضامندی سے ہی قیادت تبدیل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کا شیڈول آنے کے بعد پارٹی متحرک اور فعال نظر آئے گی۔ ہم ہر حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا کریں گے اور پارٹی ٹکٹ لینے والوں کی بڑی تعداد موجود ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل روشن ہے اور کسی کے جانے سے پارٹی کو فرق نہیں پڑے گا۔

فیروز خان خلجی صحافی ہیں اور ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔ وہ جیو نیوز کے کوئٹہ بیورو سے منسلک ہیں۔