اتنی ورکشاپس، اتنی باتیں، یااللہ خیر!

اتنی ورکشاپس، اتنی باتیں، یااللہ خیر!
کبھی کبھی تنہائی میں کوئی کلاسک پڑھتے پڑھتے نئے زمانے کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو یونہی ایک گستاخ سا وہم ہوتا ہے کہ یہ پیرنٹنگ) بچوں کی پرورش) بھی کہیں ایک پامال موضوع نہ بن جائے۔

” It seems like a very terrifying and tough job to me “کچھ لوگوں کی باتوں سے لگتا ہے کہ جب تک ایک آدھ پی ایچ ڈی نہ ہو اس موضوع پر، یا کسی معزز اور مقبول ادارے سے کچھ سرٹیفیکیٹس کورسز نہ ہوں یا کچھ مخصوص اساتذہ سے پڑھ نہ رکھا ہو، بندے کو کم از کم ماں نہیں بننا چاہیے۔ اگلی باری باپ بننے کی آئے گی۔

دوسرا رولا ان نفسیات کے ماہرین اور طالب علموں نے ڈالا ہوا ہے۔

”انیس سو بانوے کی ایک رات جب میں کتاب بند کر کے وڈیو گیم کھول کے ہی بیٹھا تھا تو میرے کمرے میں آکر میرے باپ نے مجھے ڈانٹا۔ اس ڈانٹ نے میرے نفسیاتی وجود پر جو گہرا زخم چھوڑا اس کے نشانات آج بھی مجھے تنگ کرتے ہیں۔ اگرچہ کہ اس کے بعد بھی میرے ابا نے نیا کمپیوٹر بلکہ میک بک خرید دی، اچھی ادارے میں پڑھوایا، جب میں دیر تک سویا پڑا رہتا تھا تو میرا ”بے رحم اور پرانی قدروں کا محافظ جمود کا مشعل بردار بے حس“ باپ منہ اندھیرے میرے اللے تللے پورے کرنے کو منہ اندھیرے نوکری پر گالیاں کھانے کو نکل جایا کرتا تھا مگر یقین کرو عزیزو! انیس سو اٹھانوے میں وہ رات میری روح پر جو زخم چھوڑ گئی ہے اس کا درماں کرنے کو مجھے آج تک کوئی نہ ملا“۔

”اس لیے آج میں چوریاں کرتا ہوں، لوگوں کو بے نقط سناتا ہوں، اپنے زندگی کے ساتھی سے بے وفائی کرتا ہوں اور ٹیکس چوری کرتا ہوں۔ کیونکہ میرi شخصیت کی اٹھان کے اس ٹیڑھ کی ساری ذمہ داری میرے اس فرعون صفت باپ پر عائد ہوتی ہے جو بظاہر مجھے بڑا پیار بھی کرتا تھا اور میرے لیے دعائیں کرتے مر بھی گیا۔ مگر دعاؤں سے کیا ہوتا ہے۔ پیرنٹنگ کی ایک ورک شاپ تک اس نے کبھی اٹینڈ نہ کی اور سایکوتھراپی کا ایک سیشن اس نے نہ کروای “۔

بھائی! ٹھیک ہے کہ بڑوں سے غلطیاں ہوئیں، اساتذہ کا برا حال ہوا، اسکول سسٹم میں کرپشن بھر گئی مگر یہ جو ساری اور گھٹا ٹوپ اندھیرا دکھاتے ہو جس میں ہم سب کے ماں باپ سرجھکائے پامال راستوں پر چلتے بھیانک شکلوں والے بے حس عفریت دکھائی دیتے ہیں۔ بھائی یہ والی ہارر فلم سے بڑھ کر کوئی ماڈرن ہارر نہیں لکھا گیا۔

وہ بے چارے اکبر الہ آبادی اسی لیے تو رجعت پسند تھے کہ کہہ گئے

ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

یہ حال صرف کالج یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ پیرنٹنگ کی کسی ورکشاپ کو اٹینڈ کرنے کے بعد بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

کئی نجات دہندوں کی باتیں سن کر دل میں تھرتھراہٹ سی پیدا ہوتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ چونکہ ورکشاپس اور سیشنز کے بل بھرنے کی سکت نہیں، اس لیے بچے پالنے کے بجائے انگریزوں کی طرح کتا یا بلی پال لیتے ہیں۔ کم از کم کچھ روحوں کو مجروح کرنے کا بارگراں لے کر اللہ کے حضور پیش ہونے کے خوف سے تو بچ رہیں گے۔

ہاں!!! میں نے یہ سب لکھنے کی گستاخی کی ہے۔ اب آؤ ! مجھے سنگسار کرو!!

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔