دن ساڑھے بارہ بجے سپریم کورٹ کی پارکنگ میں پہنچا تو سینیئر صحافی مطیع اللہ جان اپنے وکیل جہانگیر جدون سے مشاورت کر رہے تھے۔ ان سے سلام لیا اور پوچھا سماعت کتنے بجے ہے تو انہوں نے جواب دیا ایک بجے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔
سماعت میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا اس لئے سپریم کورٹ کے رپورٹرز کے لئے مختص پریس روم میں آ گیا۔ وہاں سینیئر صحافی آصف بشیر چوہدری، راشد حبیب، حسن ایوب، ذوالقرنین، غلام نبی اور دیگر گپ شپ کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد مطیع اللہ جان بھی آ گئے تو آصف بشیر چوہدری نے سوال پوچھا کہ آپ نے توہین عدالت کے الزام پر کیا جواب جمع کروایا ہے۔ مطیع اللہ جان نے بتایا کہ میں نے جواب دیا ہے میرے ٹویٹ کا مقصد اس حکمنامے پر اپنی مایوسی کا اظہار تھا جس پر سماج کا ایک بڑا حصہ تنقید کر رہا تھا۔
اگر میرے الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں تھا اور کچھ ججز کی دل آزاری ہوئی ہے تو مجھے افسوس ہے۔ لیکن میں دہرانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک سنائے گئے فیصلے پر بالکل جائز رائے اور رد عمل دیا۔ مطیع اللہ جان نے عدالت سے استدعا کی کہ عدلیہ کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ ان کو سزا دی جائے۔ مطیع اللہ جان کا یہ جواب سن کر میں نے ان سے مذاق کیا کہ مطلب ہے آپ نے عدالت کو کہا ہے کہ قانون میں بدنیتی ہے لیکن آپ کی نیت میں نہیں۔ مطیع اللہ جان ہنس کر کمرے سے چلے گئے۔
سماعت سے دس منٹ پہلے کمرہ عدالت میں پہنچا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے تین بڑے نام ملک اسد، ثاقب بشیر اور اویس یوسفزئی بھی مطیع اللہ جان سے اظہار یکجہتی کے لئے کورٹ روم نمبر ون میں موجود تھے۔ سب سے ملتا ایک نشست پر بیٹھا تو مطیع اللہ جان کے توہین عدالت میں کیس پر وکیل بابر ستار چلتے ہوئے میرے پاس آ کر بیٹھ گئے اور ہنستے ہوئے کہا، کیوں بھئی اسد آزاد کیسے گھوم رہے ہو؟ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا، آپ تو ایک غدار اور باغی ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا، دیکھا اس ریاست کا دل کتنا کھلا ہے کہ اپنے باغی اور غدار شہریوں کو بھی آزاد گھومنے دیتی ہے۔ اس کے بعد بابر ستار سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے پر گفتگو ہوئی۔ میری طرح تفصیلی فیصلے سے بابر ستار بھی مایوس نظر آئے۔
ایک بج کر بیس منٹ پر کمرہ عدالت میں آواز لگی کہ کورٹ آ گئی اور چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس اعجاز الاحسن کمرہ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد درمیان میں جب کہ جسٹس مشیر عالم ان کے دائیں ہاتھ اور جسٹس اعجاز الاحسن بائیں ہاتھ بیٹھے تھے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سینیئر وکیل بابر ستار اور جہانگیر جدون جا کر وکلا کے لئے مختص روسٹرم پر کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ شروع کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ آئی جی نے رپورٹ جمع کروائی تھی لیکن وہ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال پوچھا آئی جی کدھر ہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ دو دن کی چھٹی پر ہیں اور ایڈیشنل آئی جی آئے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ان کو پتہ ہوگا کہ سماعت مقرر ہو گئی تو وہ چھٹی چلے گئے اور اب ہم ایڈیشنل آئی جی سے کچھ پوچھیں گے تو وہ کہیں گے میں نے تو تحقیقات کی نہیں تو مجھے کیا معلوم۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں مائی لارڈشپ، آئی جی واقعی بیمار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا پر آئی جی اسلام آباد کی طرف سے جمع کروائی گئی تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی تحقیقاتی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوں لیکن پولیس نے کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر سوال پوچھا کہ توہین عدالت کرنے والا آیا ہے؟ تو وکلا نے جواب دیا کہ آیا ہے۔ میرے لئے حیران کن تھا کہ ابھی مطیع اللہ جان پر نہ تو چارج فریم ہوا ہے اور نہ ہی ان پر توہین عدالت ثابت ہوئی ہے تو پھر ان کے لئے توہین عدالت کرنے والا کے الفاظ چیف جسٹس آف پاکستان نے پہلے ہی کیوں استعمال کر دیے؟ یہ وہی عدالت ہے جس میں آئی جی اسلام آباد اور اٹارنی جنرل نے مانا کہ مطیع اللہ جان اغوا ہوئے تھے لیکن جب آرڈر لکھوانے کی باری آئی تو جسٹس اعجازالاحسن نے چیف جسٹس کو تصحیح کروائی کہ لکھوایا جائے کہ الزام ہے مطیع اللہ جان اغوا ہوئے تھے یعنی مبینہ مغوی اور آج وہی کورٹ مطیع اللہ جان کے لئے مبینہ توہین عدالت والا نہیں بلکہ توہین کرنے والا کہہ کر پکار رہی تھی۔
لیکن میں نے نوٹ کیا کہ مطیع اللہ جان اپنی نشست سے اٹھنے کی بجائے سر گھما کر اپنے دائیں بائیں اور پچھلی نشستوں پر دیکھنے لگے جیسے کسی کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ ہم سب نے آواز دے کر مطیع اللہ جان کو بولا کہ آپ کو روسٹرم پر بلایا جا رہا ہے۔ سماعت کے بعد مطیع اللہ جان سے پوچھا کہ آپ سر گھما کر ادھر ادھر کیوں دیکھ رہے تھے، روسٹرم پر کیوں نہیں گئے اپنا نام سن کر؟ مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ کیونکہ میں نے تو توہین عدالت کی ہی نہیں تو میں نے سمجھا شاید کمرہ عدالت میں کوئی توہین عدالت والا موجود ہے اس لئے سر گھما کر دیکھ رہا تھا کہ اگر کوئی توہین عدالت کا مجرم موجود ہے تو اس کو روسٹرم پر بھیج سکوں۔
سماعت کی طرف واپس آتے ہیں۔ مطیع اللہ جان ہمارے کہنے پر روسٹرم کے پاس آ کر اپنے وکلا کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کے وکیل جہانگیر جدون سے استفسار کیا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تو حکم دیا تھا کہ قانون کے مطابق تحقیقات کر کے رپورٹ متعلقہ فورم پر جمع کروا دی جائے۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کیس میں وکیل جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ لیکن سر یہ ویسے تحقیقات نہیں کر رہے جیسے ان کو کرنے کو کہا گیا تھا اور جہانگیر جدون نے رپورٹ کے حصے پڑھنے شروع کر دیے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مداخلت کرتے ہوئے برہمی کا اظہارکیا کہ آپ کو جلدی کیا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تحقیقات اپنی تسلی کے لئے آرڈر کی تھیں، کسی فوجداری کارروائی کے لئے نہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس اعجاز الاحسن کا ساتھ دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ ہمارے سامنے کیوں آئے ہیں؟ آپ کو پولیس کی معاونت کرنی چاہیے، ہمیں مت بتائیں کہ یہ کرو، وہ کرو۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے پولیس رپورٹ پر آرڈر لکھوانا شروع کر دیا اور قرار دیا کہ ہم نے رپورٹ کا جائزہ لیا ہے اور وہ تسلی بخش نہیں ہے اور نہ ہی آئی جی کو تحقیقات کا کچھ معلوم ہے۔ چیف جسٹس نے تحقیقات کسی مجاز افسر سے کروا کر متعلقہ عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی۔
پولیس رپورٹ کا معاملہ نمٹانے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ توہین عدالت میں کیا کرنا ہے؟ مطیع اللہ جان کے وکیل بابر ستار نے جواب دیا کہ وہ اس پر بحث کریں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ تو کیا ہم توہین عدالت کا چارج فریم کر دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی اس موقع پر نہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے بابر ستار کو کہا کہ ہم آپ کو اگلی سماعت پر ہی سنیں گے اور عدالت برخاست ہو گئی۔
سینیئر صحافی اسد ملک، آصف بشیر چوہدری، مطیع اللہ جان، ثاقب بشیر اور اویس یوسفزئی سے گفتگو کرتے سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر نکل کر پارکنگ میں پہنچے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف پیٹیشن کرنے والے ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نظر آ گئے اور ان کے ہاتھ میں کسی پیٹیشن کے کاغذات تھے۔
صحافی اسد ملک نے مذاق سے پوچھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلہ پر نظر ثانی دائر کرنے آئے ہو؟ حنیف راہی ایڈووکیٹ نے گھبرا کر جواب دیا کیوں مروانا ہے مجھے؟
میں نے ہنستے ہوئے طنزیہ طور پر کہا کہ حنیف راہی صاحب آپ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے خلاف پیٹیشن کر کے دیکھیں پچیس لاکھ کی ہائبرڈ کار نکلوا لی تھی۔ سوچیں نظر ثانی کی درخواست دائر کریں تو کون سی گاڑی نکلوا سکتے ہیں۔ ملک اسد میرے سوال کے اندر چھپی شرارت کو بھانپ گئے تھے اور ریاض حنیف راہی سے پہلے بول پڑے کہ اگر آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی نا راہی نے تو گاڑی نہیں اس کو ٹینک ملے گا اور وہ بھی سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا ہوگا۔ توپ کا منہ سپریم کورٹ کی طرف کر کے، کہ دو فیصلہ اب۔ اس بات پر سب نے ایک بڑا قہقہ لگایا اور سب اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف روانہ ہو گئے۔