Get Alerts

فرانس، جہاں کپڑے پہننے کی آزادی نہیں، توہین مذہب کی ہے

فرانس، جہاں کپڑے پہننے کی آزادی نہیں، توہین مذہب کی ہے
حیران نہ ہوں، یوں تو  بیشترانسان  دوسرے کے ساتھ ایک ان دیکھانقاب چہرے پر سجائے وہ کر رہا ہے جس کا ادراک  بے چارے دوسرے کو نہیں۔ فرق یہ رہا کہ وہ نقاب نظروں سے اوجھل  ضرور رہے مگر عمل میں ان کی چمک نظر آتی رہی ہے۔ اور پھر آج کل تو پوری دنیا کی آبادی نقاب میں چہرہ چھپائے ایک دوسرے سے  بچنے کی کوشش میں ہے۔ بقول شاعر شہزاد احمد کہ: ہزار چہرے ہیں آدمی غائب: یہ کس خرابے  میں دنیا نے لاکر چھوڑ دیا۔

راقم کا تعلق بھی اسی نقاب پوش آبادی سے ہے اور سوچا یہی تھا کہ جلد  یہ نقاب رفتہ رفتہ سرکتی جائے گی لیکن لگتا یوں ہے کہ سرکنے کے بجائے یہ  چڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ نقاب پوش اپنی ڈائری میں دنیا بھر کے معاملات کو زیر بحث لائے گی کیونکہ وہ ایک جگہ ٹکتی نہیں وہ کسی وقت کہیں بھی موجود ہوسکتی ہے بغیر اپنے وجود کے احساس کے ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ لوگ اب اس نقاب پوشی سے تنگ آگئے ہیں اور  ستم ظریفی تو یہ ہے کہ فرانس، جہاں  2011  اپریل میں نقاب پر پابندی لگا دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ کوئی عورت، ملکی یا غیر ملکی نقاب کے ساتھ گھر سے نہیں نکل سکتی۔ اب دیکھئے کیا ہوگیا کہ نہ صرف  فرانس بلکہ پوری دنیا  یہ کہہ رہی کہ کوئی فرد عورت، مرد، جوان بزرگ حتیٰ کہ بچے بھی نقاب کے بغیر گھر سے نہ نکلیں ۔

ایک وقت تھا کہ بینک میں نقاب پوش خطرے کی علامت گردانا جاتا تھا اور آج نقاب پوش بینک جاکر پیسے مانگ رہا ہے ۔یہ ساری کرامات اس وائرس کی ہیں جسے صدر ٹرمپ خاطر میں نہیں لارہے اور ان کی  انتخابی مہم، ان کے جلسے اس وائرس کو پھیلانے میں خاصے مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔2020 کے صدارتی انتخابات پچھلے بیشتر انتخابات کے مقابلے میں  بہت ہی انوکھے ہیں، ووٹرز کا جھکاؤ نہ کسی جماعت کی طرف ہے اور نہ کسی نظرئیے پر بلکہ رنگ و  نسل   ان کا حلقئہ انتخاب ہے۔ادھر پاکستانی کمیونٹی میں یہ خدشہ بھی نظر آرہا ہے کہ چونکہ کملا ہیرس کی وراثت میں انڈیا بھی شامل ہے تو بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے  ڈیمو کریٹ کو ووٹ دینے میں ہچکچا رہے ہیں حالانکہ امریکہ کے زمینی حقائق پاکستان سے مختلف ہیں۔ اور لوگ یہ نہیں سمجھ رہے کہ کملا ہیرس کا آنا امریکہ کی جنوب ایشائی کمیونٹی کے لئے باعث اطمینان ہے کہ پہلی بار کوئی جنوب ایشیائی سیاہ فام خاتون کو ایک بڑی سیاسی جماعت نے ایک اہم عہدے کے لئے چنا ہے۔ نقاب پوش کو تو لگتا ہے کہ اگر بائیڈن یہ انتخابات جیتے تو کملا ہیرس  بھی ایک وجہ ہوں گی۔ اور امریکی سفید فام آبادی انہیں قبول کر لے گی بالکل ویسے ہی جیسے سابق صدر براک حسین اوباما کو کیا تھا کیونکہ وہ بھی کملا کی طرح غلام سیاہ فام طبقے سے متعلق نہیں تھے۔ جہاں تک بات انڈین ہونے کی ہے تو  اگر کوئی بھی ان کی جگہ نائب صدارت کے لئے منتخب ہوتا یا ہوتی، انڈیا کی طرف جھکاؤ تو ہونا تھا کہ  یہ شخصیت کی بات نہیں بلکہ امریکی مفاد اسی میں پوشیدہ ہے۔

اکثر لوگوں کو اس امر پر حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ میں  یہ نسلی مسئلہ، یہ احتجاج، یہ توڑ پھوڑ کی سیاست کیوں آگئی ہے؟  راقم کا سوال ہے کہ کیا امریکہ میں صرف فرشتے بستے رہے ہیں؟ یہ بھی تو انسانوں کی سرزمین ہے یہاں سب کچھ وہی یوتا ہے جو ہمارے آپ کے بچھڑے ملک میں ہوتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کا نظام جابرانہ حد تک مضبوط ہے، مگر اسکی بھی کوئی  ضمانت نہیں کہ یہ نظام کب تک اپنے جبر کو قائم رکھتا ہے، آخر کو انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے!