پارلیمنٹ پاکستانی سیاست کا ایک نیا باب لکھ رہی ہے۔ یوں بظاہر تو پارلیمان عدالت عظمیٰ کے ساتھ کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہے مگرعدالت عظمیٰ کے اندر سے اٹھنے والی عدالتی رائے جس نے نہ صرف چیف جسٹس کے بنچ بنانے کے اختیارات بارے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ سوموٹو کے اختیار پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ اوپر سے چیف جسٹس صاحب سمیت ان کے ہم خیال جج صاحبان جو تسلسل کے ساتھ حکومتی مقدمات سننے میں اُن کے ساتھ بنچز میں بیٹھتے رہے ہیں، کے بارے میں آڈیو لیکس نے ان ججز کو عوامی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
جہاں ججز کا کنڈکٹ اور عدالتی فیصلے اختلافی نوٹس کے سبب تنقید کی زد میں آئے اور وہیں اسی بنچ میں موجود ججز کے جاری کردہ اختلافی نوٹس نے ان بنچز اور فیصلوں کے بارے تنقید کو اور بھی آسان بنادیا۔ لوگ عدالت ہی کے معزز ججز کے اختلافی نوٹس کے حوالوں سے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور حکومت کو بھی جواز مہیا ہوگیا کہ وہ اپنے خلاف فیصلے کو دو تین کے بجائے چار پانچ کی نسبت کا فیصلہ کہتے ہوئے وہ اس کے خلاف قرارداد منظور کروانے میں حق بجانب لگنے لگے۔
اس سارے منظر نامے کے پیچھے وہ تمام سہولت کاریاں اور فیصلے تھے جن کا آغاز 2014 کے دھرنوں اور یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے ہوتا ہوا میاں نواز شریف کی نااہلی تک کا سفر ہے۔ اس سارے دورانیے میں پارلیمان عدالت عظمیٰ کے تقدس میں ہر سزا کو برداشت کرتے آرہے تھے مگر ان کے اندر ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں تحفظات ضرور تھے۔ مگر اس وقت اس سارے کھیل میں فوجی سہاروں کا بھی ساتھ میسر تھا جس کی وجہ سے پارلیمان اپنی بے بسیوں کو چھپائے کسی خاص وقت کی تلاش میں خاموش ظلم و ستم سہتی رہی۔
اس دوران 2008 سے لے کر2018 تک حکومت کو گرانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں ایک دوسرے کو سہارا مہیا کر کے جمہوریت کو دوام بخشتے رہے۔ نواز شریف نے 2008 سے لے کر 2013 تک پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر جمہوریت کے خلاف عمل پیرا قوتوں کو شکست دینے میں پورا پورا ساتھ دیا اور اسی طرح 2013 سے لے کر2018 تک پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ کا ساتھ دے کر مشکلات جھیلیں مگر جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیا۔ مک مکا کے طعنے بھی سنے، جیلیں بھی جھیلیں، دم بھی گھٹتا رہا مگر اشاروں کنایوں میں اپنے خلاف ظلم و ستم کی نشاندہی بھی کرتے رہے اور جمہوریت کے پرچم کو بھی تھامے رکھا۔
آخر 2018 کے الیکشن میں جمہوریت کے روپ میں بہروپیے کی صورت وہ کوششیں اپنا رنگ دکھانے میں کامیاب ہوگئیں جن کا بعد میں پچھتاوا بھی ہوا مگر اس وقت تک ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا تھا اور بہروپیے اپنے قدم جما چکے تھے جن کوقوم ابھی بھی شاید پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے ملک سیاسی انتشار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
بڑے بڑے انکشافات اور الزام تراشیاں ہوتی رہیں۔ بیساکھیوں کو ڈنڈے بنا کر اپنے ہی محسنوں کو ہانکنے کی کوششیں بھی زمانے کی آنکھ نے دیکھیں۔ بڑی سبق آموز داستانیں رقم ہوئیں اور سہولت کاریوں کے دور بھی چلتے رہے مگر جمہوریت کا پرچم تھامے پاکستان کی پختہ ذہن سیاسی جماعتیں اپنی سست روی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہیں۔ طاقت اور اختیارات کے گھمنڈ میں غرق طاقتوں سے غلطیاں بھی ہوتی رہیں جو اپنی داستانوں کے نشان بھی چھوڑتی رہیں اور بالآخر آج صورتحال یہ ہے کہ پارلیمان میں موجود پاکستان کی اکثریتی بڑی سیاسی جماعتوں کا اتحاد پارلیمنٹ کی 'سپریمیسی' کو منوانے کے لئے ابھی بھی زور آزمائی کی مشق سے گزر رہا ہے۔
اس سارے منظر نامے کےآثار یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اب ڈٹ گئے ہوئے ہیں اور ان کے اس اعتماد کے پیچھے محرک وہ ساری داستانیں ہیں جو جمہوریت کے ساتھ کھیل میں لکھی جاتی رہی ہیں اور اب ان کا انتقام وہ صرف اور صرف جمہوریت کا دوام ہی سمجھتے ہیں اور ایک مضبوط پارلیمان جس کو ریاست کے تمام وسائل اور سہولتوں سے لیس وہ ادارے جن کا مقصد صرف اور صرف ملک و قوم کی فلاح ہے، کا ساتھ اور یہ احساس دلانا ہے کہ یہ وسائل اور سہولتیں ریاست اور اس ملک و قوم کی امانت ہیں اور ان کا استعمال ان کی فلاح کے لئے ہی استعمال ہونا چاہیے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کی تکمیل کی خاطر۔
اکیسویں صدی کی تمام سیاسی داستانیں خواہ وہ فوجی آمریت کی ہوں یا بادشاہت کی وہ ایک ہی گواہی دے رہی ہیں کہ اس وقت معاشی خوشحالی ہو، سائنسی ترقی یا سیاسی استحکام وہ صرف اور صرف جمہوریت ہی کے کسی نہ کسی حلیے کے حصے میں آیا ہے۔ اس وقت کامیاب ریاستوں کی کامیابی کا راز مضبوط جمہوری نظام حکومت میں ہی ہے خواہ وہ ہمسایہ ہمارے قرب جوار میں ہو یا میلوں دور کی مسافت پرپھیلی مشرق و مغرب یا شمال و جنوب کی پارلیمانی، صدارتی یا بنیادی جمہوریتیں۔
جمہوری طرز سیاست میں جیسے جیسے سیاستدانوں میں پختگی آتی جاتی ہے ان کے باہمی اختلافات اصولی بنیادوں پر قائم ہو کر ان کا جمہوریت کی پختگی پر یقین مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت پختہ ہو اور یوں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں سے مخلص قیادت نکھر کر سامنے آتی چلی جاتی ہے۔ مفاد پرست اور ناپختہ سیاستدان راستے کی رکاوٹ ضرور بنتے ہیں مگر یہ جمہوریت کو مزید پختگی دیتے ہیں اور دونوں اطراف کی صفیں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں اور سیاستدانوں کی ان صفوں میں منتقلی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ جمہوری پختگی میثاق جمہوریت کے راستے سے ہوتے ہوئے اب ایک پختہ شاہراہ پر گامزن ہوچکی ہے اور اپنی منزل کی طرف اپنے سیاسی کارواں کے ہمراہ رواں دواں رہے گی۔ آمریت سے جمہوریت کی منتقلی اور پختگی کا عمل یوں ہی طے پاتا ہے۔ ہائبرڈ فیز بھی آتے ہیں۔ جیسے جیسے سہولت کاروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ان کے آلہ کاروں کی امداد کمزور پڑتی جاتی ہے۔ امدادی ہاتھ ملتے جاتے ہیں۔ عوام میں شعور اجاگر اور عوام کی حقیقی نمائندہ پارلیمان کی طاقت کا توازن بحال ہوتا جاتا ہے اور یہی پارلیمان کے اعتماد کے پیچھے اصل طاقت ہوتی ہے۔