وزیر اعظم شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض سے نائب وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ وزیر اعظم ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس کے لئے ریاض سعودی عرب میں موجود ہیں جہاں اسحاق ڈار بھی ان کےہمراہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا۔ ان کی ہدایت پر اتوار کو چھٹی کے روز کابینہ ڈویژن کے سکریٹری کامران علی افضل نے نوٹیفکیشن جاری کیا لیکن اعلان اسحاق ڈار کی وزارت خارجہ نے کیا جس کے کچھ دیر بعد وزیر اعظم آفس کا اعلامیہ جاری ہوا۔
سیاسی حلقے اس نئی پیش رفت پر گومگو کا شکار ہیں لیکن واقفان حال اس فیصلہ کے متعلق بہت کچھ بتا رہے ہیں۔ ن لیگ سے وابستہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کا تعلق نواز شریف کے دورہ چین کے ساتھ ہے۔ جہاں انہوں نے اپنے چینی دوستوں کے ساتھ بھی اس حوالے سے مشاورت کی اور پھر فیصلہ کر کے انہوں نے ریاض میں موجود وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کسی بھی رکاوٹ سے بچنے کے لئے اس کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کیا جائے۔ ن لیگی رہنما اپنا نام ظاہر نہ کر ے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ سعودی دوستوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس فیصلہ پر عملدرآمد سے پہلے اعتماد میں لیا گیا ہے۔
واقفان حال کہتے ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھ رہا ہے بلکہ واقفان حال کے بقول بعض دیگر سنجیدہ معاملات بھی پس منظر میں ہیں۔ سابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بارے میں بھی یہ خبریں آ چکی ہیں کہ وہ ڈپٹی وزیر اعظم کے کئے لابنگ کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب ن لیگ میں شہباز شریف مخالف گروپ کے بھی حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کے حوالے سے تحفظات بڑھ رہے تھے۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ انوار الحق کاکڑ کی کوششوں کے بعد ابتدا میں بلاول بھٹو زرداری کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ پیش کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک بار پھر کابینہ کا حصہ بننے سے معذرت کی۔ جبکہ دوسری جانب ن لیگ میں نواز شریف کا حامی گروپ اور خود نواز شریف چاہتے تھے کہ فیصلہ سازی اور پنجاب میں ن لیگ کی گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لئے نواز شریف کا کردار اور حکومتی معاملات پر گرفت بڑھائی جائے۔
ن لیگی واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور چین کے ساتھ انویسٹمنٹ اور معاشی و اقتصادی تعاون کو ہر حال میں آگے بڑھانے کے لئے اسحاق ڈار فوکل پرسن ہوں گے کیونکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کا ان ممالک میں اپنا حلقہ اثر بھی موجود ہے۔ جبکہ بعض ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربت کے باوجود فیصلہ سازی میں کمزوری بھی اسحاق ڈار کی کابینہ میں ترقی کے حوالے سے بنیادی نکتہ ثابت ہوئی۔
واقفان حال کہتے ہیں کہ چند روز پہلے مری میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی نواز شریف کےساتھ ملاقات میں اس بات کا جائزہ بھی لیا گیا تھا کہ آئین میں ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ موجود نہیں لیکن وزیر قانون نے رائے دی تھی کہ آئین میں ڈپٹی وزیر اعظم مقرر کرنے کی ممانعت بھی نہیں ہے اور وزیر اعظم کابینہ کے رولز کا سہارا لے کر انتظامی ضرورت کے لئے ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ پیدا کر سکتے ہیں اور کابینہ کا کوئی بھی رکن چاہے وہ قومی اسمبلی سے ہو یا سینیٹ سے اسے یہ عہدہ دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے چار نائب وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں تخلیق کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی درخواست کی تھی اور اس وقت انہیں فیصلہ سازی کا اختیار دینے اور بعض قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری تھا۔ دوسری بار یہ عہدہ بیگم نصرت بھٹو کے لئے تخلیق کیا گیا، لیکن وہ عملی طور پر کابینہ کا حصہ نہیں تھیں بلکہ خاتون اول کے طور پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بعض انتظامی ذمہ داریاں تفویض کی تھیں اور اس مقصد کے لئے ایک دفتر، سٹاف اور بعض دیگر معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے لئے یہ عہدہ دیا گیا۔ تیسرے نائب وزیر اعظم پیپلز پارٹی کی 2008 کی حکومت میں کچھ وقت کے لئے پرویز الٰہی مقرر ہوئے مگر یہ عہدہ نمائشی رہا۔
تاہم ن لیگ کے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب صورتحال ماضی کے بالکل برعکس ہوگی۔ فیصلہ سازی میں اسحاق ڈار کا کردار بڑھا دیا گیا ہے اور ان کے ذریعے نواز شریف کا کردار بھی موجود رہے گا۔