برطانیہ میں بچہ دانی کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن؛ کیا بانجھ پن ختم ہونے کو ہے؟

اب تک امریکہ، سویڈن، چین، بھارت سمیت متعدد ممالک میں رحم کی پیوند کاری کے کم و بیش ایک سو آپریشن کئے جا چکے ہیں۔ ایک جانب تو ماں بننے کی خواہاں حاجت مند عورتوں کے لئے یہ آپریشن امیدِ سحر ہے۔ اسی کے ساتھ ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں ٹرانس جینڈر خواتین کے لئے بھی اس معجزانہ طبی پیش رفت سے استفادے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

برطانیہ میں بچہ دانی کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن؛ کیا بانجھ پن ختم ہونے کو ہے؟

رواں ہفتے ساکنانِ برطانیہ اس بڑی خوشخبری سے آگاہ ہوئے کہ ایک 40 سالہ خاتون نے اپنی 34 سالہ چھوٹی بہن کو بچہ دانی عطیہ کر دی جو فطری طور پر اس انتہائی اہم عضو کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ماں بننے سے قاصر تھی۔

امپیریل کالج لندن سے وابستہ پروفیسر رچرڈ سمتھ کی سربراہی میں ہونے والی اس پیچیدہ جراحت میں 19 گھنٹے صرف ہوئے۔ پروفیسر صاحب گذشتہ 25 سال سے یہ معرکہ سر کرنے کے لئے تحقیق میں کوشاں ہیں اور یوں نہ صرف ان کے خواب کو تعبیر ملی بلکہ دنیائے طب میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔

اعضا کی پیوند کاری کیا ہے؟

کسی زندہ یا مردہ انسان کے جسم سے ایک عضو لے کر دوسرے شخص کے جسم میں نصب کر دینے کو پیوند کاری کہتے ہیں۔ پچھلے سال امریکہ میں ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر نے ایک مریض کے سینے میں جینیاتی ترمیم شدہ سُور کا دل لگا کر انسانیت کو ایک انوکھا اور ولولہ خیز سنگ میل عبور کرایا تھا۔ گردے، جگر، دل اور پھیپھڑے کی پیوند کاری ناگزیر اور زندگی بچانے والے آپریشن ہیں جبکہ بچے دانی کی پیوند کاری کو اب تک ناگزیر نہیں سمجھا جا رہا تھا۔

بچے دانی کی پیوند کاری کن صورتوں میں کی جاتی ہے؟

برطانیہ میں ہر 5000 میں سے ایک بچی قدرتی طور پر بچہ دانی سے محروم پیدا ہوتی ہے۔ سالانہ کوئی ایک ہزار نوجوان خواتین رحم کی اندرونی تہہ میں ورم (اینڈومیٹریوسس) کے تکلیف دہ عارضے میں مبتلا ہو کر جراحت کے ذریعے بچہ دانی نکلوانے پر مجبور ہوتی ہیں۔ پھر بہت بڑی تعداد سروائیکل کینسر کی شکار خواتین کی ہے جن کے رحم نکال دیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں زچگی میں خون زیادہ بہہ جانے کے باعث ماؤں کی زندگی بچانے کا بھی آخری چارہ کار یہی ہوتا ہے کہ ان کی بچہ دانی نکال دی جائے۔

اس طرح کی خواتین کے پاس ماں بننے کے لئے دو راستے ہوا کرتے ہیں؛ بچہ گود لے لیں یا کوئی دوسری عورت جذبہ انسانی کے تحت یا پیسے لے کر ان کی اولاد اپنی کوکھ میں پروان چڑھائے۔ اسے سروگیسی کہتے ہیں۔ یہ دونوں راستے اپنی اپنی طبی، سماجی، جذباتی، قانونی، مالی اور اخلاقی پیچیدگیوں سے لبریز ہیں۔

اس کے مقابلے میں جہاں رحم کی پیوند کاری کا عمل ماں بننے کے جینیاتی تقاضے، حمل کی صعوبتوں اور قانونی تقاضے پورے کر دیتا ہے، وہیں اپنے ساتھ بہت بڑے مسائل بھی لاتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ بچہ دانی عطیہ کرنے والی اور وصول کرنے والی دونوں خواتین کو ایک طویل، پیچیدہ اور ناگوار جراحت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بچہ دانی کے اطراف میں مثانہ، مقعد، پیشاب کی نالیاں، بڑی شریانیں اور وریدیں ہوتی ہیں جنہیں ناقابل اصلاح نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انسانی جسم میں دوسرے فرد کا عضو لگانا گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے جیسا سادہ معاملہ نہیں۔ میزبان جسم ان مہمان اداکاروں کے داخلے کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتا ہے جس سے بچاؤ کے لئے مدافعت معطل کرنے والی تیز، خطرناک، زہریلی اور مہنگی ادویات مستقل کھانی پڑتی ہیں۔ یہ ادویات اول تو حمل ٹھہرنے نہیں دیتیں، استقرار ہو جائے تو اسقاط کراتی ہیں اور ننھے جنین میں شدید جسمانی نقائص پیدا کر سکتی ہیں۔

ایسی ماؤں میں حمل سے متعلق پیچیدگیوں کا خطرہ بھی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ زچگی کا اختتام سیزیرین سیکشن (بڑا آپریشن) پر کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ ماں بننے کے بعد ان مضر ادویات سے جان خلاصی کے لئے اپنی زندگی سے اس مہمان اداکار کو خیرباد کہنا پڑتا ہے یعنی ماں کو ایک دفعہ پھر استیصالِ رحم کی تکلیف دہ جراحت سے گزرنا پڑتا ہے۔

منتقلی رحم کی مختصر تاریخ

اس طرح کا پہلا آپریشن سال 2000 میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا۔ لیکن جلد ہی یہ بچہ دانی پیچیدگیوں کا شکار ہوئی اور بالآخر 99 دن بعد اسے نکالنا پڑا۔ اس نوع کا دوسرا آپریشن ترکی میں کیا گیا۔ اس دفعہ دماغی طور پر مردہ 22 سالہ خاتون کے تن سے بچہ دانی کا حصول کیا گیا لیکن یہ تجربہ بھی مطلوبہ نتائج یعنی کامیاب زچگی سے ہم کنار نہ ہو سکا۔

منتقلی رحم کا پہلا کامیاب آپریشن سویڈن میں کیا گیا جس کے نتیجے میں 2014 میں پہلی ولادت ممکن ہو سکی۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ رحم عطیہ کرنے والی خاتون 61 سالہ تھیں۔ منتقلی رحم کے بعد ہارمونی ادویات سے اس میں ماہواری کا سلسلہ بحال کیا گیا اور پھر آئی وی ایف سے بارآوری کا عمل تکمیل پایا۔ ماں کی طرف سے بیٹی کو رحم عطیہ کرنے کا پہلا واقعہ بھی سویڈن میں رونما ہوا جہاں بیٹی اسی کوکھ سے حاملہ ہوئی جس میں اس کی اپنی زندگی کی ابتدا ہوئی تھی۔

اب تک امریکہ، سویڈن، چین، بھارت سمیت متعدد ممالک میں رحم کی پیوند کاری کے کم و بیش ایک سو آپریشن کئے جا چکے ہیں جن میں یہ عضو زندہ یا دماغی طور پر مردہ خواتین سے لیا جا چکا ہے۔ کئی صحت مند بچے ان پیوند شدہ بچہ دانیوں کے ذریعے عالمِ رنگ و بُو میں تشریف لا چکے ہیں۔

اخلاقی سوالات

کیونکہ رحمِ مادر کا ہونا زندہ رہنے کے لئے لازم و ملزوم نہیں اور منتقلی کا یہ عمل بہت بڑی پیچیدگیوں سے منسلک ہے، اس لئے اس کے اخلاقی جواز پر سوال اٹھتے ہیں۔ کیا روایتی مذاہب اس پر مہرِ تصدیق ثبت کریں گے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تین دنوں سے ہر برطانوی چینل پر اس آپریشن کے دفاع میں تواتر سے یہ دلیل سننے کو ملی کہ اسلام میں سروگیسی کی گنجائش نہیں، اس لئے مسلمان صارفین اس کا خیر مقدم کریں گے۔ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ نکتہ آفرین افراد خود مسلمان بھی نہیں۔ کہیں یہ آرزو تو پیش نظر نہیں کہ پیٹرول کی دولت سے مالا مال اقوام فٹ بال کی طرح منتقلی اعضا کی مالی سرپرستی کی جانب بھی مائل ہوں!

امیر افراد نے غریبوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر کئی بلین ڈالر کی ایک بلیک مارکیٹ قائم کر رکھی ہے جہاں اعضا بالخصوص گردے بیچے جاتے ہیں۔ کیا اس منڈی میں اب نو عمر بچہ دانیوں کی بولیاں بھی لگیں گی؟

جب تک ریاستیں اپنی کمزور اور نادار رعیت کی حفاظت کا بیڑا خود نہیں اٹھائیں گی، بنیادی ضروریات فراہم نہیں کریں گی، عزت نفس کو کچلنے میں شریکِ جرم بنتی رہیں گی، تب تک جسم فروشی کی طرح اعضا فروشی کا دھندا بھی چلتا رہے گا اور پیسے کی طاقت سے ہر اخلاقی سوال کے پسندیدہ جوابات خریدے جا سکیں گے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس پورے عمل کے لئے سخت گائیڈ لائنز بنائی گئی ہیں۔ عطیہ کنندہ اور اسے حاصل کرنے والی خواتین کا نفسیاتی معائنہ نکتہ آغاز قرار دیا گیا ہے۔

کیا بانجھ پن ختم ہونے کو ہے؟

ایک جانب تو ماں بننے کی خواہاں حاجت مند عورتوں کے لئے یہ آپریشن امیدِ سحر ہے۔ اسی کے ساتھ ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں ٹرانس جینڈر خواتین کے لئے بھی اس معجزانہ طبی پیش رفت سے استفادے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔