کیا پاکستانی معاشرہ اعضا کی پیوند کاری تسلیم کرنے کو تیار ہے؟

پاکستان میں ہر سال 50 ہزار افراد کسی اہم عضو کے ناکارہ ہونے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں گردے ناکارہ ہونے سے 15 سے 18 ہزار جبکہ جگر کی ناکامی سے 10 ہزار افراد موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ قانون سازی، عوام میں سائنسی شعور کی بیداری اور دقیانوسی خیالات سے چھٹکارا اس پورے سلسلے میں بہت اہم لیکن محض ابتدائی کام ہے۔

کیا پاکستانی معاشرہ اعضا کی پیوند کاری تسلیم کرنے کو تیار ہے؟

پاکستان سے ایک بہت امید افزا خبر ملی۔ 57 سالہ محترمہ رفعت زرتاج صاحبہ نے فالج کا شکار ہو کر موت کو گلے لگاتے لگاتے اپنے دونوں گردے اور جگر عطیہ کر کے تین لاعلاج مریضوں کی زندگی میں روشنی کی کرن جگمگا دی۔ یکایک 1997 کی ایک رات یاد آ گئی جب ہم بحیثیت جونیئر انیستھیٹسٹ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن سے وابستہ تھے۔ اس رات ان تین گردوں کی پیوند کاری کے عمل میں شریک ہوئے جنہیں کسی دوسرے ملک میں فوت شدہ افراد کے جسم سے نکال کر تحفتاً ایس آئی یو ٹی بھیجا گیا تھا۔ بے ہوشی کی ٹیم کی سربراہی پروفیسر ٹیپو سلطان کر رہے تھے جبکہ جراحت کی قیادت پروفیسر ادیب الحسن رضوی فرما رہے تھے۔ یہ انہی رضوی صاحب کے عزم اور جہدِ مسلسل کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں بعد از مرگ اعضا کا عطیہ عوامی بحث کا موضوع بن سکا ہے۔

26 سال قبل ان اعضا کا حصول اور پیوند کاری پاکستان میں ایک غیر قانونی اور غیر شرعی عمل تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے اُس وقت کے انتہائی نگہداشت کے مراکز میں مریضوں کی دماغی موت کے تعین کے ٹیسٹ میڈیکل کالج کے طلبہ اور زیر تربیت ڈاکٹروں کے سامنے کئے تو جاتے تھے لیکن ان کی قانونی اور شرعی حیثیت کوئی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ 2007 میں کراچی کے سندھ میڈیکل کالج میں پیتھالوجی کے پروفیسر عبدالرزاق میمن کی دماغی موت کے بعد ان کے دونوں گردوں کو دو مریضوں کے جسم میں لگا دیا گیا تھا۔ اس طرح یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا جو ایس آئی یو ٹی میں ہی انجام پایا۔

بعد از مرگ کون سے اعضا عطیہ کئے جا سکتے ہیں؟

جیسے جیسے طبی سائنس میں ترقی ہو رہی ہے اس دنیا سے رخصت ہونے والے انسان کے زیادہ سے زیادہ اعضا کو محفوظ کرنا اور ضرورت مند مریضوں میں منتقلی ممکن ہوتی جا رہی ہے۔ روایتی طور پر حاصل کئے جانے والے اعضا کو اگر مناسب طریقے سے محفوظ کیا جائے تو ان کی زندگی کچھ یوں بنتی ہے؛

دل اور پھیپھڑے چار سے چھ گھنٹے

جگر آٹھ سے دس گھنٹے

آنت آٹھ سے سولہ گھنٹے

لبلبہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے

گردے چوبیس سے چھتیس گھنٹے

جبکہ قرنیہ اگر 48 گھنٹے میں محفوظ کر لیا جائے تو ہفتہ بھر میں کسی کی آنکھوں میں روشنی واپس لا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ متوفی کی ہڈیاں، جوڑوں کی نرم ہڈیاں (کارٹیلیج)، رباط (لگامنٹ)، دل کے والو، خون کی نالیاں اور جلد بھی کافی عرصے کے لئے محفوظ کئے جا سکتے ہیں۔

اب تک چالیس چہرے اور تین سو ہاتھ کے ٹرانسپلانٹ بھی کئے جا چکے ہیں۔

اعضا کی پیوند کاری کے بعد مریض کی زندگی کیسی گزرتی ہے؟

ایک جسم سے اعضا لے کر انہیں دوسرے مریض میں نصب کر دینا ایک کار کے ٹائر بدلنا یا پارٹس نکال کر دوسری کار میں لگانے جیسا سادہ عمل نہیں۔ ان مریضوں کو اپنی بقیہ زندگی روزانہ بلاناغہ فطری مدافعت کو کچل دینے والی تیز اور زہریلی ادویات کھانی پڑتی ہیں، ورنہ جسم ان مہمان اعضا کو اس بری طرح مسترد یا ریجیکٹ کرتا ہے کہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ ادویات لینے سے جسمانی مدافعت اتنی کم ہو جاتی ہے کہ ہلکا پھلکا انفیکشن بھی جان لیوا ہو سکتا ہے۔ یہ ادویات ذیابیطس سے لے کر جلد کے کینسر تک کا سبب بن سکتی ہیں۔ پیوند شدہ عضو کی کارکردگی اور زندگی کا دارومدار وصول کنندہ مریض کی صحت، عطیہ کنندہ کی عمر اور لاحق بیماریوں اور سب سے بڑھ کر متعلقہ عضو پر ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں مردہ جسم سے حاصل کردہ گردہ پندرہ سے بیس سال اور جگر دس سال تک کام کر سکتے ہیں۔ دل اور پھیپھڑوں کی زندگی نسبتاً کم ہوتی ہے لیکن اس مدت میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

موت کی تعریف کیسے بدلتی گئی؟

اپنے وجود کی ابتدا سے انسان موت کی ناگزیریت سے واقف رہا ہے۔ مختلف ادوار میں موت کی متنوع مذہبی، دانشورانہ اور فلسفیانہ تاویلات پیش کی جاتی رہیں۔ اکیسویں صدی میں سائنس، ٹیکنالوجی اور طبی معلومات کے عام ہونے سے موت سے متعلق ہم سب کے رویے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یونانی اور رومی تہذیبوں میں موت کی علامات میں دل کی دھڑکن غائب ہو جانا، سانس رک جانا اور جسم سے تعفن پھوٹ پڑنا شامل تھا۔ قرون وسطیٰ کے طبیب مریض کے منہ اور ناک کے قریب شمع لا کر لَو کی حرکت سے اندازہ لگایا کرتے کہ زندگی باقی ہے یا نہیں۔ اعادہ زندگی یعنی ری سسیٹیشن کی کوششوں کا ابتدائی سراغ پندرھویں صدی سے ملتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں زندگی بحال کرنے کی سعی میں مریض کے آس پاس شور شرابا کرنا، دہشت ناک چیخیں مارنا، لہسن، پیاز اور دیگر تیز بودار عرق کو ناک میں انڈیلنا، ہنٹر سے پٹائی، اسے کانٹوں پر لٹانا اور پیر کے ناخنوں کے نیچے سوئیاں چبھو کر دیکھنا شامل تھا۔

1742 میں جان بروئیر نامی یورپی ڈاکٹر نے ایک سائنسی مقالے میں ان 52 افراد کی کہانی بیان کی جنہیں مردہ سمجھ کر دفن کر دیا گیا تھا۔ اس سے عوام میں سخت خوف و ہراس پھیلا اور ڈاکٹروں سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ موت کی تصدیق کے لئے قابل اعتبار نشانیاں تلاش کریں۔ 1819 میں سٹھیتھو سکوپ کی ایجاد نے اس گتھی کو کسی حد تک سلجھا دیا لیکن آنے والے برسوں میں مصنوعی تنفس کی مشینیں اور دل کو بجلی کا جھٹکا لگا کر دوبارہ فعال کرنے والے ڈی فبری لیٹر دستیاب ہو گئے۔

1968 میں دل کا پہلا ٹرانسپلانٹ بھی کر لیا گیا تو نوع انسانی ایک دفعہ پھر شکوک و شبہات سے ہم کنار ہوئی۔ یہی وہ موقع تھا جب ہارورڈ میڈیکل سکول امریکہ میں ایک انیستھیٹسٹ کی سربراہی میں بنی کمیٹی نے وہ معیار مقرر کر لیا جس پر پورا اترنے والے مریض کی زندگی بحال نہیں کی جا سکتی۔ اس کا نام انہوں نے وہ کوما رکھا جس سے واپسی کا کوئی امکان نہیں (ارری ور سیبل کوما)۔ چند سالوں میں اس معیار کو تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ دنیا بھر کے اطبا نے تسلیم کر لیا۔ اسے ہم برین سٹیم ڈیتھ یا دماغ کے تنے کی موت کہتے ہیں۔ انسانی سانس کی باقاعدگی سے آمد و رفت کا کنٹرول یہیں سے ہوتا ہے۔ اس تشخیص تک پہنچنے کے لئے دو ماہر تجربہ کار ڈاکٹروں کی موجودگی لازمی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تعریف پر اتفاق کا مقصد اعضا کی پیوند کاری ہرگز نہیں بلکہ ایسے ضابطہ کی تلاش تھا جس پر پورا اترنے والے مریضوں کے وینٹی لیٹر بند کر کے انہیں باعزت طریقے سے موت کی آغوش میں جانے دینا اور خالی ہونے والے بستر کو انتہائی نگہداشت کے منتظر کسی دوسرے مریض کے حوالے کرنا تھا۔

طبی تعریف میں موت کی دوسری قسم دل کی حرکت کا بند ہو جانا ہے۔ اسے گردشی موت یا سرکیولیٹری ڈیتھ کہتے ہیں۔ دماغی موت اور گردشی موت دونوں سے دوچار افراد اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔

عالمی آرگن ڈونیشن آبزرویٹری

ہر گزرتے سال کے ساتھ اپنے اعضا عطیہ کرنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اعضا کی پیوند کاری کی جا رہی ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد زندہ ڈونر کے اعضا کی ہوتی ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق 30 ہزار اعضا فوت شدہ اجسام سے حاصل کئے گئے جن میں تقریباً 80 فیصد کی دماغی موت ہوئی تھی جبکہ 20 فیصد گردشی یا دل کی فوتگی سے ہم کنار ہوئے تھے۔

آپٹ ان یا آپٹ آؤٹ

دنیا میں اعضا کی سب سے زیادہ پیوند کاری امریکہ میں کی جاتی ہے لیکن اقوام عالم کی قیادت کا سہرا یورپ کے ایک نسبتاً کم امیر ملک سپین کے سر بندھا ہے جہاں سب سے پہلے یعنی 1979 سے ہی آپٹ آؤٹ یعنی اعضا عطیہ نہ کرنے کی وصیت کا قانون نافذ کیا گیا۔ مہذب دنیا میں اعضا عطیہ کرنے کے خواہاں افراد کے لئے اس وقت دو نظام موجود ہیں۔ پہلا آپٹ اِن یا اپنی مرضی سے اظہار کر کے ڈونر لسٹ میں اپنا نام لکھوانا ہے۔ پاکستان میں بھی حال ہی میں بنے قانون کے تحت شناختی کارڈ پر نشان کی موجودگی سے اعضا عطیہ کرنے والے فرد کی شناخت ہو سکے گی۔ آپٹ آؤٹ سسٹم جو 2020 سے انگلستان میں بھی لاگو ہو گیا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ برین ڈیتھ یا سرکولیٹری ڈیتھ میں مبتلا ہر شخص ایک ممکنہ ڈونر ہے جس کے اعضا لے کر دوسرے انسان میں نصب کئے جا سکتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے باقاعدہ باشعور رہتے ہوئے اس سکیم سے باہر رہنے کا انتخاب یا آپٹ آؤٹ کیا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ شدید زخمی، دماغی چوٹ، فالج یا دل کے دورے کے ساتھ آئے مریض کا علاج معالجہ کرنے والے طبیب پر اب دہری ذمہ داری ہے۔ ایک طرف اسے مریض کی زندگی بچانے کی بھرپور کوشش کرنی ہے، دوسری طرف اسے ٹرانسپلانٹ ٹیم کو مطلع کرنا ہے اور ان اعضا کے بچاؤ پر توجہ مرکوز رکھنی ہے جو ضرورت مند مریضوں کے کام آ سکتے ہیں۔ سپین میں ہر دس لاکھ افراد کے لئے اعضا کے 47 ڈونر موجود ہوتے ہیں جبکہ امریکہ میں یہ شرح 37 کی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان دنیا کی پست ترین اقوام میں شمار ہوتا ہے جہاں ابھی تک یہ تعداد صفر ہے۔

پاکستان میں ہر سال 50 ہزار افراد کسی اہم عضو کے ناکارہ ہونے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں گردے ناکارہ ہونے سے 15 سے 18 ہزار جبکہ جگر کی ناکامی سے 10 ہزار افراد موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں سالانہ کوئی ایک لاکھ افراد ایسے حالات میں فوت ہوتے ہیں جب ان کے اعضا کسی دوسرے انسان کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ قانون سازی، عوام میں سائنسی شعور کی بیداری اور دقیانوسی خیالات سے چھٹکارا اس پورے سلسلے میں بہت اہم لیکن محض ابتدائی کام ہے۔ اعضا کی پیوند کاری کے لئے جدید سہولیات سے مزین طبی ادارے اور ٹرانسپلانٹ انفراسٹرکچر کے بغیر اس میدان میں کارکردگی دکھانا ناممکن ہوگا۔