Get Alerts

پاکستان کرکٹ بورڈ بحرانی حالت سے کیسے نکل سکتا ہے؟

محسن نقوی کو کرکٹ کی قاف کا بھی نہیں پتہ، اس کے غلط فیصلے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں امریکہ اور اب ٹیسٹ کرکٹ میں بنگلہ دیش سے شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے جب جب کرکٹ سے نابلد لوگ چیئرمین بنے تب تب کرکٹ بورڈ میں غلط فیصلے ہوئے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ بحرانی حالت سے کیسے نکل سکتا ہے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ پر بحرانی کیفیت طاری ہے۔ میں نے دانستہ طور پر کرکٹ ٹیم نہیں لکھا بلکہ کرکٹ بورڈ لکھا ہے کیونکہ یہ پاکستان کی کرکٹ کی روایت ہے کہ جب بھی کرکٹ بورڈ کے معاملات ان افراد کے ہاتھوں میں آتے ہیں جن کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تب تب کرکٹ بورڈ بحرانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے اور اس کا اثر کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کچھ بڑی ناکامیوں سے دوچار ہوئی۔ ون ڈے ورلڈ کپ میں افغانستان کے ہاتھوں غیر متوقع شکست، میں اس کو اپ سیٹ اس لیے نہیں لکھ رہا کیونکہ افغانستان ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والا ملک ہے اس لئے اس شکست کو اپ سیٹ نہیں غیر متوقع شکست کہا جا سکتا ہے۔

اپ سیٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ہوا جب امریکہ جیسی نووارد ٹیم نے پاکستان کو ہرایا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے پہلے 1999 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان بنگلہ دیش (اس وقت ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلا تھا) سے اپ سیٹ شکست سے دوچار ہوا تھا۔ پھر 2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ سے اپ سیٹ شکست (ٹیسٹ کرکٹ میں آئرلینڈ نہیں تھا) اور اس سال تیسری دفعہ امریکہ سے اپ سیٹ شکست اور اب ٹیسٹ کرکٹ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخی ناکامی۔

رمیز راجہ کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی جبری برطرفی کے بعد اب تک 3 کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بن چکے ہیں؛ نجم سیٹھی، ذکا اشرف، اور اب محسن نقوی۔ ان تینوں احباب کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دو بزنس مین اور صحافی تھے اور ایک بزنس مین اور ایک بینک کا سابقہ چیئرمین تھا۔ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کی رقابت بہت پرانی ہے۔ چند سال قبل یہ دونوں احباب عدالتی جنگ لڑ چکے ہیں۔ کبھی ایک چیئرمین بن جاتا تھا تو کبھی دوسرا، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہوا، فرق صرف یہ کہ اب کی بار ایک تیسرا محسن نقوی دونوں کو فارغ کر کے خود کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بن چکا ہے۔

محسن نقوی کو کرکٹ کی قاف کا بھی نہیں پتہ، اس کے غلط فیصلے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں امریکہ اور اب ٹیسٹ کرکٹ میں بنگلہ دیش سے شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے جب جب کرکٹ سے نابلد لوگ چیئرمین بنے تب تب کرکٹ بورڈ میں غلط فیصلے ہوئے۔ 1993 میں صرف ایک دورہ آسٹریلیا میں ناکامی پر جاوید میاں داد کو کپتانی سے ہٹانا اس وقت کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جسٹس نیسم حسن شاہ کا غلط فصیلہ تھا۔ تب سے مستقل کپتان نہ بنانے کی ایک ایسی روایت قائم ہوئی جس نے کرکٹ کو نقصان پہنچایا۔

90 کی دہائی میں جاوید میاں داد کو کپتانی سے ہٹانے کے غلط فیصلے کے بعد ویسم اکرم، سلیم ملک، رمیز راجہ، عامر سہیل، معین خان، وقار یونس، راشد لطیف، انضمام الحق سب باری باری کپتان بنے۔ یہی کچھ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے ونر کپتان سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے سے نقصان شروع ہوا۔ اب تک بابر اعظم دو بار، شاہین شاہ آفریدی اور شان مسعود کپتان بن چکے ہیں۔

حال ہی میں جب محسن نقوی نے وقار یونس کو کرکٹ بورڈ میں اہم ترین عہدہ دیا تاکہ بورڈ میں کرکٹ سے متعلق تمام فیصلے ایک کرکٹر وقار کرے مگر ایک نان کرکٹر سلمان واہلہ نے وقار یونس کی ایک نہ چلنے دی اور یوں وقار یونس نے عہدہ چھوڑ دیا۔ پھر کہتا ہوں کہ بحران کرکٹ ٹیم کا نہیں، کرکٹ بورڈ کا ہے۔ نان کرکٹرز کو کرکٹ سے متعلق فیصلے کرنے سے روک کر صرف انتظامی امور پر رکھا جائے، پلیئر پاور ختم کریں، وائٹ بال اور ریڈ بال کا مستقل کپتان کم از کم 2 سال کے لیے مقرر کریں، کوچز، سلیکشن کمیٹی اور کپتان ذاتی پسند نہ پسند کو بالائے طاق رکھ کر ٹیم منتخب کریں تو پاکستان کرکٹ کی بحرانی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

کرکٹ بورڈ کا چیئرمین وہ ہو جس کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ ہو۔ محسن نقوی جیسے کرداروں کے کرکٹ بورڈ تو کیا، کرکٹ سٹیڈیم کے سامنے گزرنے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔