Get Alerts

بلاول پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے

بلاول پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے
27 دسمبر 2018 بینظیر کی برسی کے موقع پر بلاول گھن گرج کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور تقریباً وہی بیانیہ اپنا لیا جو پانامہ سکینڈل آنے بعد سے نواز لیگ خاص طور پر مریم نواز نے اپنایا ہوا تھا۔ یہ جارحانہ رویہ دراصل نواز شریف اور زرداری کی طرف سے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیں منظر سے نہ ہٹایا جائے کیونکہ اگر ہم منظر سے ہٹ بھی گئے تو آپ کی مشکلیں کم نہیں ہونگی بلکہ شاید بڑھ جاٸیں گی کیونکہ ہمارے جانشین ہم سے زیادہ سخت گیر مٶقف رکھتے ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم جب تک زندہ ہیں ہمیں سیاست میں بھی زندہ رہنے دیا جائے۔ دوسری جانب مقتدر حلقے یا تو اس پیغام کو مسترد کر رہے ہیں یا سمجھ نہیں پا رہے اور ان کی طرف سے ایک ہی جواب آتا ہے کہ نیب یا سپریم کورٹ کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں ہے۔

ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ یقین دہانی کروا دی گٸی ہے کہ اگلی حکومت ان ہی کی ہوگی اور بلاول ہی اگلے وزیراعظم ہونگے

دوسرا ممکنہ پہلو بلاول کے جارحانہ مؤقف کے پیچھے یہ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ یقین دہانی کروا دی گٸی ہے کہ اگلی حکومت ان ہی کی ہوگی اور بلاول ہی اگلے وزیراعظم ہونگے۔ شاید آپ کو یہ پڑھ کر حیرانی ہو رہی ہو لیکن مجھے کوٸی حیرانی نہیں کیونکہ اگر غور کیا جائے تو الیکشن سے پہلے نواز شریف کو دیوار سے لگانے میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا ہے۔ مثال کے طور پر بہت شور شرابہ کرنے بعد جب عمل کا وقت آیا تو عین وقت پر احتساب بل میں ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے مطالبے سے دستربرداری، رضا ربانی کی بطور چیٸرمین سینیٹ لگانے کے بجائے صادق سنجرانی کی حمایت کرنا، نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حمایت کرنا وغیرہ اور پھر الیکشن 2018 کا جو نتیجہ آیا اس میں پی پی پی کو بظاہر تو بلاول کی لیاری والی سیٹ اور چند کراچی کی سیٹوں پر غیر متوقع شکست ہوٸی جس پر پی پی پی نے بہت شور مچایا کہ ہمارے ساتھ بھی بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے دھاندلی ہوگٸی ہے لیکن بغور اگر دیکھا جائے تو جس طرح پنجاب میں تحریک انصاف کی ہاٸیپ سے ن لیگ کو نقصان ہوا اسی طرح سندھ میں جی ڈی اے کی ہاٸیپ سے پی پی پی کو نقصان پہنچایا جا سکتا تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور سندھ بہت آرام سے پی پی پی کی جھولی میں آ گرا۔ اسی طرح باقی صوبوں میں پی پی پی کا ووٹ بینک بڑھا ہے لیکن پی پی پی کے رہنماؤں نے دھاندلی کا شور مچا کر مظلوم بننے کی کوشش کی حالانکہ ان کی جماعت کو سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی 2013 کی نسبت 2018 میں غیر متوقع طور پر زیادہ ووٹ ملے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پی پی پی بطور جماعت اس وقت تک مقتدر حلقوں کے لئے قابل قبول ہے۔



اگر زرداری بھی جیل جاتے ہیں تو ن لیگ کا مؤقف ہر طرح سے کمزور پڑ جائے گا

ہو سکتا ہے کہ اب بھی پی پی پی کا شور صرف ن لیگ کے اس مؤقف کو ڈفیوز کرنے کے لئے ہو کہ صرف ن لیگ کا احتساب ہو رہا ہے کیونکہ اگر زرداری بھی جیل جاتے ہیں تو ن لیگ کا مؤقف ہر طرح سے کمزور پڑ جائے گا۔ ایک تو عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ نواز شریف اور زرداری اپنی کرپشن بچانے کے لئے مقتدر قوتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور دوسرا عوام میں یہ تاثر بھی پھیلے گا کہ احتساب سب کا ہو رہا ہے، صرف نواز شریف کا نہیں اور اگر زرداری کو اس کے نتیجے میں جیل بھی جانا پڑ گیا لیکن بلاول بری ہو گئے تو ان کے لئے یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ ایک طرف تو جہاں اس سے ن لیگ کا یکطرفہ احتساب کا بیانیہ غلط ثابت ہو جائے گا تو دوسری طرف بلاول کے وزیراعظم بننے کے امکانات بھی روشن ہو جاٸینگے کیونکہ ن لیگ کے تمام بڑے رہنما شہباز، مریم اور حمزہ سمیت لگتا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں جیل میں ہونگے اور اگر نواز شریف کے بعد پیچھے بچ جانے والی ن لیگ کی بڑی قیادت اور زرداری کو سزا ہوتی ہے اور بلاول بری ہو جاتے ہیں جس کا قوی امکان بھی ہے تو پھر بلاول کو بہت سیاسی خلا ملے گا جسے وہ اپنے جارحانہ اینٹی اسٹیلشمنٹ مؤقف سے باآسانی پر کر لیں گے۔

پی پی پی بطور جماعت مقتدر حلقوں کے لئے تاحال قابل قبول لگتی ہے

یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو مؤقف نواز شریف، زرداری اور مریم کو نہیں لینے دیا گیا وہ بلاول لے سکے۔ سوال بہت جاٸز ہے لیکن اس کا جواب موجود ہے۔ ایک تو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پی پی پی بطور جماعت مقتدر حلقوں کے لئے تاحال قابل قبول لگتی ہے اور دوسرا موجودہ حالات میں پی پی پی مقتدر حلقوں کی مجبوری بھی ہے۔ وجہ؟ ایک وجہ یہ ہے کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک تو ہمارے ہاں کوٸی بھی وزیراعظم پانچ سال پورے نہیں کر پاتا اور کوٸی بھی جماعت ایک کے بعد دوسری باری نہیں لے سکتی۔اسے اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اگر نہیں بیٹھے تو بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس لئے وہ لوگ جو عمران خان کو اگلے دس سال تک وزیراعظم دیکھ رہے ہیں اگر پورے پانچ سال بھی دیکھ پاٸیں تو غنیمت جانیں۔

سندھ کی جماعت کو 15 سال وفاق سے دور نہیں رکھا جا سکتا

جب پانچ سال گزر جاٸیں گے تو بلاول کے علاوہ کوٸی آپشن نہیں ہوگا کیونکہ سندھ کی جماعت کو 15 سال وفاق سے دور نہیں رکھا جا سکتا ورنہ کوٸی بھی قوم پرست اٹھ کر احساس محرومی کارڈ کھیل سکتا ہے اور پھر جب بلاول اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لے کر پختونخوا کے بھٹکے ہوئے نوجوان پشتونوں کو آواز دیں گے اور بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین کو آواز دیں گے اور ان کی آواز بنیں گے جس کا اشارہ انہوں 27 دسمبر کو اپنی تقریر میں دیا تو وہ بھٹکے ہوئے تمام لوگ دوبارہ قومی دھارے میں جوق در جوق شامل ہو جاٸیں گے۔ اس طرح بلاول ملک کے کام آ سکتے ہیں اور ان سے یہ کام لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر مریم سمیت ن لیگ کی باقی قیادت بھی جیل میں ہوٸی تو بلاول پنجاب کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹر کو بھی متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں گے۔ یوں ن لیگ کی قیادت کی عدم موجودگی میں ن لیگ کے ووٹرز کی بڑی تعداد بھی بلاول کے گرد جمع ہو سکتی ہے۔ یوں ایک تیر سٕے کٸی شکار ہو جاٸیں گے۔

ن لیگ چھوٹے صوبوں کے باغی لوگوں کو قومی دھارے میں واپس نہیں لا سکتی

ن لیگ کو اس لئے بھی یہ سپیس نہیں دی جا سکتی کہ ان کے بارے میں چھوٹے صوبوں میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پنجاب کی اکثریت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے اور پنجاب کو ہی اہمیت دی۔ چھوٹے صوبوں کو اگنور کیا۔ اس لئے وہ یہ کام نہیں کر سکتی کہ چھوٹے صوبوں کے باغی لوگوں کو قومی دھارے میں واپس لا سکے، تو یوں بلاول کا اینٹی اسٹیلشمنٹ بیانیہ دراصل مقتدر قوتوں کی ہی مجبوری بن چکا ہے جو یقیناً اس سے فاٸدہ اٹھائے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس لئے بلاول ہی ملک کے اگلے وزیراعظم ہونگے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔