شاہ رخ خان نے اس بونے کو لافانی کر دیا ہے

شاہ رخ خان نے اس بونے کو لافانی کر دیا ہے
غیر معمولی کارناموں کیلئے غیر معمولی اشخاص ہی چنے جاتے ہیں۔ عام ڈگر سے ہٹ کر ایک ایسی فلم بنانے کا رسک لینا جس میں ایک اڑتیس سال کا بونا، سٹیفن ہاکنگ کی طرح کی ایک انتہائی ذہین مگر وہیل چیئر پر بولنے کی مشکلات کی شکار ہیروئن ہو، ناسا کی طرف جانے کی سخت ٹریننگ اور اس مشن کا آغاز، اس کیلئے درکار انتہائی دشوار ویژؤل ایفیکٹس، یہ سب بالی وڈ میں صرف ایک شخص کر سکتا ہے جس کا نام شاہ رخ خان ہے۔ اللہ نے اس شخص میں نہ جانے کیا طاقت اور فن عطا کر دیا ہے کہ ترپن سال کی عمر میں بھی وہ سنجیدہ، جذباتی، رومانٹک، مزاحیہ، ٹریجک اداکاری ایک جیسی مہارت سے ایک ہی فلم میں امر کر جاتا ہے۔ میرٹھ کے ایک صاحب ثروت گھرانے کا ایک چشم و چراغ، باؤوا، جو کسی وجہ سے قد کا چھوٹا رہ گیا ہے اور اڑتیس سال کی عمر میں بھی کنوارا ہے۔

قد کے علاوہ اس کی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں۔ وہ انتہائی ذہین، پر اعتماد، چرب زبان اور عورتوں میں مقبول ہے۔ انوشکا وہیل چئیر پر چہرے کے ٹیڑھے پن کا شکار، مشکل سے بولتی ایک سائنسدان ہے جبکہ کترینہ نفسیاتی الجھنوں کی شکار ایک سپر سٹار ہے جو ایک واقعے کی وجہ سے باؤوا کے قریب آ جاتی ہے۔ فلم کا پہلا ہاف نان سٹاپ انٹرٹینمنٹ ہے جس میں ہنس ہنس کر آپ دہرے ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرا ہاف انتہائی سنجیدہ، جذباتی اور ویژؤل ایفیکٹس سے بھرپور ہے جس میں باؤوا ناسا پروگرام کے تحت سخت ترین ٹریننگ کے بعد مریخ کیلئے منتخب ہو جاتا ہے۔



کترینہ اب اپنی لکس اور رقص سے آگے بڑھ کر اچھی اداکارہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ انوشکا نے گو بہت مشکل رول بہت مہارت سے ادا کیا ہے مگر کہیں کہیں اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آئی۔ فلم کی روح، جسم، جان شاہ رخ خان ہے جس نے اس بونے کو لافانی کر دیا ہے۔

شاہ رخ نے اس رول میں اپنی روح سمو دی ہے مگر وہ ایک بھیانک غلطی کا مرتکب ہو گیا ہے۔ اتنے زبردست انٹرٹیننگ فرسٹ ہاف کے بعد ایکدم فلم کو ایک ناقابل تصور ٹوئسٹ دے کر سیرئس اور جذباتی کر دینا۔ بونے کے زیرو کو عظمت کے مینار پر بٹھا کر یہ پیغام دینا کہ زیرو کچھ نہیں ہوتا، وہ بھی سپر سٹار ہو سکتا ہے، ناسا اور مریخ کی باتیں، یہ سب ہندوستانی فلم بین کے لیول سے تھوڑا آگے کی چیز ہے۔

شاہ رخ اپنے آڈئینس کو تھوڑااوور ایسٹیمیٹ کر گیا ہے۔ اگر وہ روایتی لو ٹرائینگل تک محدود رہتا اور شغل میلے میں ہی ختم کر دیتا تو یہ سوپر ڈوپر ہٹ ہوتی۔ فلم کو ایک مقصد دے کر عام فلم بین کا اس میں انٹرسٹ کھو دیا ہے۔ یہ سبجیکٹ وغیرہ سے ابھی عام ناظرین دور ہیں۔ فلم اپنی لاگت تو پوری کر لے گی لیکن سپر ہٹ ہونا مشکل لگ رہا ہے۔

اس فلم نے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پچھلے ستائیس سال سے شاہ رخ ہی بالی وڈ کا شاہ ہے۔ اس  کے فن کی حدود زمین سے مریخ تک پھیلی ہوئی ہیں۔

جیو شاہ رخ

سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔