پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اراکین پارلیمان میں پہنچے ہیں اور اب قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پاکستان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ پاکستان کے 13 ویں صدر ڈاکٹر عارف علوی کے عہدے کی معیاد 9 مارچ کو مکمل ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق یکم مارچ کو صدر کے انتخاب کا شیڈول اور پبلک نوٹس جاری کیا جائے گا۔ آئین کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے گا۔ مجوزہ پروگرام کے مطابق 2 مارچ دن 12 بجے تک امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی کسی بھی پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس جمع کروا سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی میں صدارتی الیکشن کے لیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پریزائیڈنگ افسر مقرر کئے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی پریزائیڈنگ افسر ہوں گے۔ سندھ اسمبلی کے لئے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پریزائیڈنگ افسر ہوں گے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ پریزائیڈنگ افسر مقرر کیے گئے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے لئے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ پریزائیڈنگ افسر مقرر کئے گئے ہیں۔ پریزائیڈنگ افسران صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کریں گے اور صدارتی الیکشن کے لئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کے عمل کی نگرانی کریں گے۔
ترجمان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 41 (4) کے تحت صدر مملکت کا انتخاب عام انتخابات کے انعقاد کے بعد 30 دن کے اندر کرانا لازم ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 91 اور 130 کے تحت انتخابات کے بعد تمام اسمبلیوں کی پہلی نشست 21 دن کے اندر منعقد ہونا ضروری ہے۔ 29 فروری 2024 کو تمام اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں اور یوں صدر مملکت کے انتخاب کیلئے مطلوبہ الیکٹورل کالج کی تکمیل ہو چکی ہے۔
آئین کے مطابق سینیٹ، قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی کل تعداد 1189 ہے جن میں سے سینیٹ ارکان کی تعداد 104، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 336، پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تعداد 371، سندھ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 168، خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 145 اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہے۔
آئین کے آرٹیکل 41 (3) کے تحت صدارتی انتخاب کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ایک ایک ووٹ ہوگا لیکن چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔
پنجاب اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 371 ہے جسے 65 پر تقسیم کیا جائے تو صدارتی انتخاب میں پنجاب اسمبلی کے 5.70 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں ٹوٹل نشستوں 168 کی تعداد کو 65 سے تقسیم کیا جائے تو 2.58 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 145 کو بھی 65 سے تقسیم کیا جائے تو 2.24 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔ بلوچستان اسمبلی چونکہ تعداد کے حساب سے دیگر صوبوں کی نسبت چھوٹی اسمبلی ہے اور اراکین کی تعداد 65 ہے اس لئے یہاں کے ہر رکن کا ایک ایک ووٹ ہی تصور کیا جائے گا۔ صدارتی انتخاب کیلئے کل ووٹوں کی تعداد 700 ہو گی۔
صدر کے انتخاب کے لئے موجودہ الیکٹورل کالج کے مطابق اس وقت سینیٹ میں کل ووٹوں کی تعداد 95 ہے، اسی طرح قومی اسمبلی میں 302 ووٹ ہیں جبکہ ایک نشست این اے 8 پر الیکشن ملتوی کر دیا گیا ہے جبکہ این اے 15 اور این اے 146 پر حکم امتناعی جاری کیا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
پنجاب اسمبلی میں الیکٹورل کالج کیلئے 371 نشستوں میں سے 339 ارکان ووٹ ڈالیں گے کیونکہ پی پی 266 پر الیکشن ملتوی کر دیے گئے اور پی پی 133، 284، 289، 297 پر انتخابی نتائج روکے گئے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کو متوقع طور پر ملنے والی خواتین کی 24 مخصوص اور 3 اقلیتی نشستوں پر بھی ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
سندھ اسمبلی میں 168 نشستیں ہیں اور صدراتی انتخاب کیلئے 163 ووٹ موجود ہیں کیونکہ سنی اتحاد کونسل کو اقلیت کی ایک نشست اور خواتین کی 2 مخصوص نشستوں پر فیصلہ زیرالتوا ہے جبکہ سندھ اسمبلی کے حلقہ 80 سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کی وفات کے بعد نشست خالی ہے اور حلقہ 129 جیتے ہوئے امیدوار کی طرف سے انتخابی اخراجات کا ریکارڈ جمع نہ کروانے پر کامیابی کا حتمی نوٹیفکیشن روکا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کی 145 نشستوں میں سے 116 اراکین صدر کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے کیونکہ سنی اتحاد کونسل کو 25 اقلیتی اور خواتین کی نشستیں دینے پر ابھی فیصلہ نہیں ہوا جبکہ دو حلقوں پر انتخاب ملتوی ہو چکا ہے اور 2 حلقوں پر انتخابی نتائج ابھی تک روکے گئے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں ٹوٹل 65 نشستیں ہیں مگر صدارتی انتخاب کیلئے 62 اراکین ووٹ ڈالیں گے کیونکہ حلقہ 7، 14 اور 21 کے انتخابی نتائج روکے جا چکے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں چونکہ اس وقت اہل ووٹرز کی تعداد 62 ہے اس لئے باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹرز کی تعداد بھی 62 ہی تصور کی جائے گی۔
ایوانوں میں موجودہ پارٹی پوزیشن
سینیٹ کے اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 95 ہے جن میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 24 اور آزاد سینیٹرز کی تعداد بھی 24 ہے۔ اسی طرح سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 21 اراکین، پاکستان مسلم لیگ ن کے 5، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے 6، متحدہ قومی موومنٹ کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، نیشنل پارٹی کے 2 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 2 اراکین موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور پاکستان مسلم لیگ کا ایک ایک سینیٹر موجود ہے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں صدارتی انتخاب کیلئے اہل ووٹرز کی تعداد 302 ہے جن میں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے 108، سنی اتحاد کونسل کے 81، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، جمعیت علماء اسلام کے 8، پاکستان مسلم لیگ ق کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4 جبکہ مجلس وحدت المسلمین، پاکستان مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک ووٹ موجود ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں 116 اہل ووٹرز ہیں جن میں سنی اتحاد کونسل کے 87، جمعیت علماء اسلام کے 9، پاکستان مسلم لیگ ن کے 8، پاکستان پیپلز پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کا ایک ایک رکن جبکہ 5 آزاد اراکین بھی موجود ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں 339 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 201، سنی اتحاد کونسل کے 105، پاکستان پیپلز پارٹی کے 14، مسلم لیگ ق کے 10، استحکام پاکستان پارٹی کے 5، تحریک لبیک پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق اور مجلس وحدت المسلمین کا ایک ایک رکن اور ایک آزاد رکن موجود ہے۔
سندھ اسمبلی میں 163 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 114، متحدہ قومی موومنٹ کے 36، سنی اتحاد کونسل کے 9، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3 اور جماعت اسلامی کا ایک رکن موجود ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں 62 اہل ووٹرز موجود ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 17، پاکستان مسلم لیگ ن کے 16، جمعیت علماء اسلام کے 12، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 3 جبکہ جماعت اسلامی، بلوچستان نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
حکومتی اتحاد کے صدارتی امیدوار کتنے ووٹ حاصل کر سکیں گے؟
سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان مسلم لیگ ق کے حمایت یافتہ آزاد ووٹرز، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے کل 57 ووٹ ہیں۔
قومی اسمبلی میں اگر حکومتی اتحاد کے ووٹوں کی تعداد دیکھی جائے تو یہ ٹوٹل 211 ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین شامل ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق کے 42 ووٹ جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے اتحادی جماعت کے ممکنہ طور پر 7 ووٹ بنتے ہیں۔
سندھ اسمبلی میں حکمران اتحاد کے 57 اور بلوچستان اسمبلی سے حکمران اتحاد جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں، ان کے 38 ووٹ بنتے ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل تمام جماعتیں اگر اپنےصدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالیں تو ان کا امیدوار ممکنہ طور پر 412 ووٹ حاصل کر پائے گا۔ اس وقت صدارتی الیکشن کے لئےمجموعی طور پر 645 ووٹرز موجود ہیں جن میں سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں 397 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 248 ووٹ موجود ہیں۔ جبکہ آئین کے تحت ایوان بالا، ایوان زیریں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صدارتی الیکشن کے لئے ٹوٹل 700 ووٹ ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے حکومتی اتحاد کے بعد آصف علی زرداری کو صدارتی امیدوار بنانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی مہم کے لئے چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو مختلف جماعتوں سے رابطہ کر کے آصف علی زرداری کو ووٹ دینے کے لیے قائل کرے گی۔
آئین کے تحت صدر مملکت کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کیا جاتا ہے۔ صدر کے امیدوار کیلئے مسلمان ہونا لازم ہے، عمر کی کم از کم حد 45 سال مقرر کی گئی ہے، رکن قومی اسمبلی بننے کی شرائط پر پورا اترنا بھی لازم ہے۔ صدارتی الیکشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین پارلیمنٹ میں ایک ہی جگہ ووٹ ڈالیں گے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی پولنگ سٹیشن بنیں گی۔
موجودہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عہدے کی 5 سالہ آئینی مدت گذشتہ برس ستمبر میں مکمل ہو چکی ہے تاہم اس وقت الیکٹورل کالج نہ ہونے کی وجہ سے وہ تاحال اپنے عہدے پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔