سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو اغوا کرنے کا الزام

سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو اغوا کرنے کا الزام
سپیکر قومی اسمبلی و پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو اغوا کرنے کا الزام، صوابی تھانے میں مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست جمع کروا دی گئی۔

نیا دور میڈیا کے ذرائع کے مطابق صوابی میں ایک سابق پولیس افسر ممتاز خان کے بیٹے اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کامران کو اغوا کرنے کے الزام میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر مقدمہ درج کروانے کے لئے صوابی تھانے میں ابتدائی درخواست جمع کروا دی گئی ہے۔

ابتدائی معلومات کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کامران کو صوابی انٹرچینج سے ایک گاڑی میں زبردستی بٹھانے کی کوشش کی گئی، جسے مقامی افراد نے ناکام بنا دیا۔ مقامی افراد نے گاڑی میں سوار اہلکاروں کو پکڑ لیا۔ جن میں سے ایک نے بتایا کہ ان کا تعلق ایف آئی اے سے ہے اور وہ سپیکر قومی اسمبلی کی ہدایت پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو اٹھانے آئے تھے۔

اپنے آپ کو ایف آئی اے اہلکار بتانے والے شخص نے کہا کہ اسد قیصر نے انہیں کہا کہ یہ مجھ پر تنقید کرتا ہے اس کو اٹھا لو۔

کامران کے والد ممتاز خان نے نیا دور سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا سوشل میڈیا پر اسد قیصر اور پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کرتا تھا، میرا بیٹا گھر واپس آگیا ہے اس لیے ہم کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف آئی اے اہلکاروں نے اقرار کیا ہے کہ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کے کہنے پر کامران کو اٹھایا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں موقعے پر موجود نہیں تھا اور رشتہ داروں نے مجھے کہا کہ ایف آئی اے والوں نے اقرار کیا کہ ہم نے اسد قیصر کے کہنے پر ان کو اٹھایا۔

اس سلسلے میں جب صوابی کے چھوٹا لاہور پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا گیا تو بار بار رابطے کے بعد انھوں نے یہ کہہ کر کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا کہ ہمیں اس واقعے کا معلوم نہیں۔

صوابی کے ایک صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ کامران اسد قیصر کی منصوبوں پر تنقید کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کو نشانہ بنایا گیا۔ کامران کو پہلے بھی کئی بار فون پر دھمکیاں دی گئی تھیں مگر وہ مسلسل تنقید کر رہا تھا۔

مقامی صحافی نے مزید بتایا کہ کچھ اہلکاروں نے رات کو کال کر کے صحافیوں کو دھمکایا کہ کوئی بھی اس واقعے کو رپورٹ نہیں کرے گا جس کی وجہ سے خبر منظر عام پر نہیں آئی۔



سپیکر اسد قیصر اور ان کے پرسنل اسسٹنٹ سے ان کا مؤقف جاننے کے لئے بار بار رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔