سپیکر قومی اسمبلی کی وزرا اور حکومتی اراکین سے ملاقاتوں کے بعد اپوزیشن نے غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتے ہوئے ان کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن اراکین سے دستخط بھی کروا لیے گئے ہیں۔
اس پر 100 سے زائد اپوزیشن اراکین نے دستخط کیے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔ سپیکر مسلسل ہمارے اراکین کو بھی ملاقات کیلئے بلا رہے اور فون کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سپیکر کے اس اقدام کے خلاف عدم اعتماد لا رہے ہیں کہ وہ جانبدار ہو گئے ہیں۔ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد جمع ہو گئی تو وہ قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکیں گے۔ وزیراعظم کے خلاف پھر عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر کرینگے۔
دوسری جانب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک اور اہم ملاقات طے پا گئی ہے۔
اتحادی جماعتوں سے رابطوں پر مشاورت سے متعلق ایک اور اہم ملاقات جلد اسلام آباد میں ہوگی۔ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مشاورت ہوگی۔ اس اہم ملاقات میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر بھی مشاورت ہوگی۔
ادھر نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے وہ ہر کسی سے تصادم کے لئے تیار ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ عمران خان جس طرح کی زبان اور لہجہ استعمال کر رہے وہ بہت ہی حیران کن ہے۔
انہوں نے کہا اگر اپوزیشن سے کسی نے نیوٹرل کی اس طرح تشریح کی ہوتی تو حکومت نے سر پر آسمان کھڑا کر دینا تھا۔ حکومت ساڑھے تین سال کہتی رہی کہ ادارے نیوٹرل ہیں۔ وزیراعظم خود کہتے ہیں وہ کسی بلاک کا حصہ نہیں نیوٹرل ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر انہوں نے ہی متعارف کرایا، اب کہتے ہیں نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پہلے کہا عدم اعتماد ان کے خلاف عالمی سازش ہے ،اب کہتے ہیں ان کی دعا قبول ہو گئی ہے۔ اپنے ہی بیان سے یوٹرن لینا ان کی عالمی پہچان بن چکی ہے۔ عدم اعتماد سے بچنے کی ان کی منصوبہ بندی ملک کو کشیدگی اور آئینی بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ بوکھلاہٹ میں یہ غلط زبان اور منصوبے بنا رہے ہیں۔ مصنوعی اکثریت پر قائم اس حکومت کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔