Get Alerts

اپوزیشن کی مسلسل ناکامی اور حکومت کی تازہ ترین واردات

اپوزیشن کی مسلسل ناکامی اور حکومت کی تازہ ترین واردات
میاں صاحب آرہے ہیں، میاں صاحب جا رہے ہیں، پیج پھٹ گیا، ہاتھ ہٹ گیا، حکومت کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے، ڈیل ہوگئی ڈھیل مل گئی، ضمانتیں مل گئیں، احتساب بیانیہ دفن ہوگیا، کرپشن کی انتہاء ہوگئی، ڈالر اور پیٹرول کی قیمتیں حکومت کی ناکامی اکانومی تباہ ہوگئی، ملک لٹ گیا، برباد ہو گیا اور صحافت کا گلا گھونٹ دیا سے لے کر کرسی چھوٹی صوفہ بڑا تک اور پی ایس ایل کے پرومو کی جیمز بانڈ کی فلم کی کاپی تک ساڑھے تین سال اپوزیشن اور میڈیا مستقل ایک ہیجانی کیفیت میں دھونس، زور، زبردستی اور آخر میں منت ترلوں اور واسطے دینے پر اتر آنے کے بعد بھی حکومت کے خلاف ناکام نظر آ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف تازہ ترین واردات میں حکومت ایک ووٹ کے فرق سے اسٹیٹ بینک والا ترمیمی بل سینیٹ سے پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی جب کہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔

ایسی صورت میں لنڈے کے منڈیلاؤں اور چی گویروں کا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سونا ہی بنتا ہے کہ نا تو یہ حکومت کہیں جاتی نظر آرہی ہے اور نا ہی بظاہر کوئی سیاسی تبدیلی منظر نامے کا حصہ بننے والی ہے جبکہ تحریک عدم اعتماد، ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے اورحکومتی ارکان کے ٹوٹنے کی باتیں اپنی موت آپ مر چکیں۔ اگر ان تلوں میں تیل ہوتا تو اپوزیشن جو کئی ہفتوں سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر واویلا ڈال رہی تھی اس کے لئے عدم اعتماد کا سنہری موقع تھا مگر اس معاملے میں اپوزیشن نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور دونوں ایک پیج پر نظر آئے جس کی وجہ کوئی مک مکاؤ تھا یا ٹیلی فونز کی گھنٹیاں اس سے قطع نظر بعد کا شور شرابا اور پریس کانفرنس محض عوام کی انکھوں میں دھول جھونک کر اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر خود کو معصوم اور دھلا دھلایا پاک پوتر ثابت کرنے کی ناکام کوشش تھی۔

موجودہ حالات میں سپریم کورٹ بار کی درخواست البتہ اہم ضرور ہے مگر نتیجہ خیز ثابت ہوتی نظر نہیں آرہی کہ آئینی ماہرین کی آراء میں قانونی پہلوئوں کی بنیاد پر قابل سماعت بھی نہیں۔ دوسرا شیخ صاحب کے بقول حکومت کے سر پر ہاتھ کی موجودگی کی صورت میں بادی النظر میں کسی قسم کا ریلیف میاں صاحب کو ملتا نظر نہیں آرہا خاص طور پر جب فیصلہ ساز ماضی میں تین بار ایک ہی غلطی کو بھگت چکے ہوں اور بیسیوں مرتبہ طعن و تشنیع کی زد میں رہے ہوں ہاں مگر شہباز شریف کا معاملہ مختلف ہے جو احتجاجی سیاست سے ہٹ کر مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں مگر میاں صاحب کے فیصلوں کے خلاف نہ جانے کی چھاپ ان پر شک و شبہے کے بادلوں کو مزید گہرا کرتی آ رہی ہے۔ چونکہ پاکستان کا عدالتی نظام دنیا بھر میں تنزلی کی رینکنگ میں ٹاپ پر ہے تو کچھ بعید بھی نہیں کہ زیبرے کو ہاتھی ثابت کردیا جائے۔

اب رہ گیا لانگ مارچ تو اج تک کے متحدہ اپوزیشن کے ناکام اور فلاپ ترین مظاہروں اور جلسہ نما جلسیوں کی طرح یہ بھی صرف سیاست میں خود کو زندہ اور متعلق رکھنے کی ایک اور ناکام کوشش ٹھہرتی نظر آرہی ہے کیونکہ اس دن آدھے سے زیادہ اسلام اباد ویسے ہی مقامی سول انتظامیہ کے اختیار سے باہر ہوتا ہے نیز کئی دیگر حساس معاملات کی بناء پر چڑیا کا بچہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا خاص کر جب ملک ایک اور دہشت گردی کی لہر کی لپیٹ میں نظر ارہا ہو ایسے میں اس لانگ مارچ سے امیدیں وابستہ کر لینا صرف خواب و خیال کی باتیں ہی ہیں۔

تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اسے تاریخ کی نکمی ترین اپوزیشن ملی ہے جو تمام تر میڈیا اور سوشل میڈیا سپورٹ، پراپیگینڈے، جھوٹی خبروں اور ہزار کوششوں کے باوجود حکومت کو زرہ بھر کوئی سیاسی نقصان نہیں پہنچا سکی الٹا چند دن قبل نون لیگ میں سے وزارت عظمی کے امیدواروں کی آوازوں کو رانا ثناء اللہ کا تازہ ترین بیان تقویت پہنچا رہا ہے کہ "اگر وزارت عظمی کے لئے نواز شریف اور شہباز شریف کا میرٹ بنتا ہے تو مسلم لیگ نون کے دیگر سینئیر رہنمائوں کے لئے ڈاکٹر نے پرہیز تو نہیں لکھا" جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ نون لیگ میں تقسیم کی دراڑوں میں کہیں ناں کہیں حقیقت موجود ہے جب کہ دوسری طرف حکومت کا مقابلہ صرف اپنے آپ سے ہے اور بد انتظامی سے لے کر بدترین نا اہلی اور اقرباء پروری تک حکومت خود اپنے بوجھ تلے دفن ہوتی چلی جارہی ہے جس کا ثبوت ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں پے درپے شکستیں ہیں۔

حیرانگی سے زیادہ افسوس مگر اس بات پر کہ موجودہ حکومت سے لے کر ماضی کے اکثریت سیاست دانوں تک سب ہمیشہ ڈیل اور ڈھیل ہی کے نتیجے میں سیاست اور اقتدار تک پہنچے ایسے میں سول سپر میسی کے نعرے مارتے انقلابیوں کی باتیں اور بیانات صرف ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کے مصداق نظر آتے ہیں جن کا مقصد ہمیشہ سے صرف عام عوام کو بیوقوف بنا کر خود کی اور اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی و خوشحالی ہے کہ اشرافیہ کے مفادات کل بھی ایک تھے اور اج بھی مشترک ہیں، ایسے میں عوام بیچاری صرف سیاست کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی آئی ہے کہ یہی ہماری قوم کا مقدر ہے جسے وہ خود تبدیل نا کرنا چاہے تو اسمان سے ابا بیلوں کے اترنے کی دعائیں کیسے قبول ہوں۔