خدارا جمہوریت کو چلنے دیں

خدارا جمہوریت کو چلنے دیں
انتخابات 2018 کو ہوئے تین روز گزر چکے لیکن اپوزیشن جماعتوں کا رونا ختم نہیں ہو رہا۔ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا صدمہ کم ہونے میں نہیں آ رہا جبکہ پاک سر زمین پارٹی تو کومے سے ہی باہر نہیں آ رہی حتیٰ کہ مصطفیٰ کمال تو ہارنے کے بعد میڈیا کے سامنے بھی نہیں آ رہے۔

مولانا کی صورتحال ایسی ہے جیسے بچے سے لولی پاپ چھین لی ہو

دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کی صورتحال ایسی ہے جیسے کسی نے بچے سے لولی پاپ چھین لی ہو۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کی صورتحال کافی روایتی ہے؛ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد فضل الرحمٰن کی تقریر سے عوام کو سمجھ نہیں آ رہا کہ سٹوری میں ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ اس وقت سیاسی صورتحال کچھ بھی ہو لیکن بہرحال تحریک انصاف پاکستان میں ایک واضح برتری کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ اس وقت پاکستان کی بقا کی باتیں کرنے والی سیاسی جماعتیں جس طرح سیاسی نابالغ ہونے کا ثبوت دے رہی ہیں، اس کی مثال ماضی میں بھی نہیں ملتی۔



جمہوریت جیسی بھی ہو، چاہے وہ بوٹوں کی بیساکھی کے سہارے ہی کیوں نہ چل رہی ہو، اسے چلنے دیں

لیکن یہاں اگر صورتحال کا دوسرا رخ دیکھیں تو صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ خدارا جمہوریت کی گاڑی کو چلنے دیں، یہاں اگرسیاسی جماعتیں تھوڑا سا بلوغت کا مظاہرہ کریں تو انہیں بھی سمجھ آ جائے گا کہ جمہوریت جیسی بھی ہو، چاہے وہ بوٹوں کی بیساکھی کے سہارے ہی کیوں نہ چل رہی ہو، اسے چلنے دیں۔ پاکستان میں جیسے تیسے پچھلی دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی، جو ایک خوش آئند بات ہے، لیکن اب ان سیاسی جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

بھارت نے حکومت میں کبھی بوٹوں کی آواز نہیں سنی

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک میں جمہوریت پھلی پھولی ہے، اس کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اس میں سالوں کی جدوجہد شامل ہے، تب کہیں جا کر وہاں جمہوریت کی جڑیں اتنی مضبوط ہوئی ہیں کہ عوام اپنا نمائندہ خود چننے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کی مثال کے لئے انقلاب فرانس کی مثال دوں تو شاید پڑھنے والوں کو لگے کہ میں یورپ کے آئیڈیل موحول کی بات کر رہی ہوں لیکن انقلاب فرانس کے پیچھے جو جدوجہد ہے اسے یہاں بیان کرنے اور سمجھانے میں بات لمبی ہو جائے گی۔ لیکن اگرکہیں دور جانے کی بجائے اپنے پڑوسی ملک بھارت کی مثال دوں تو شاید بات جلدی سمجھ میں آ جائے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت نے حکومت میں کبھی بوٹوں کی آواز نہیں سنی۔ یہی وجہ ہےکہ جمہوریت کی عمر وہاں 70 سال سے زیادہ ہے اور آج وہاں حکومتی پالیسیوں کے خلاف انا ہزارے جیسا کوئی سماجی رہنما اگر بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائے تو حکومت ہل جاتی ہے کیونکہ حکومت عوام نے بنائی ہے۔



سیاسی جماعتیں سیاسی شعورکا مظاہرہ کریں

دوسری جانب پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ 1947 سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے درخت کو جڑیں مضبوط کرنے کا موقع نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کی عمر پاکستان میں صرف 10 سال ہے۔ پچھلے دس سالوں میں لولی لنگڑی ہی سہی لیکن جمہوریت اپنی پٹری پر چل پڑی ہے، اس دفعہ پھرعوام کے اربوں روپے خرچ کر کے جمہوری عمل یعنی الیکشن کے بعد حکومت بننے جا رہی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی شعورکا مظاہرہ کریں اور نئی جمہوری حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری عمل کو رکنے نہ دیں۔

پاکستان کو اس جمہوریت کی پٹری پر آگے جانے میں دیر تو ضرور ہو گئی ہے لیکن اب گاڑی چلتی رہنی چاہیے۔ سیاسی شعور اور بیداری کے لئے ابھی پاکستانی قوم کو مزید 20 سے 25 سال لگیں گے لیکن سیاست کی گاڑی رکنی نہیں چاہیے۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔