سرزمینِ پاکستان پر ریاست کا ایک مبہم بیانیہ ہے جو صرف ریاست کو تقویت دیتا ہے۔ جس میں اسلام کو ہتھیار کے طور استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی بیانیہ عام عوام میں مقبولیت رکھتا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی کسی نہ کسی شکل میں ریاست کی اتحادی ہیں اور اسلامی نظام کے نفاد کے نعرے لگاتی ہیں۔ جماعت اسلامی سمیت کسی بھی مذہبی جماعت نےاسلامی نظام کا سیاسی ڈھانچہ نہیں دیا ہے۔ اگر بات کرتے ہیں تو اخلاقی نظام تک محدود رہتے ہیں ۔ متحدہ مجلس عمل کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہو یا افغانستان میں طالبان کانظام حکومت، اس میں اخلاقی نظام کے نفاد کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام کا جو سیاسی نظام مقبول ہے وہ خلافت اور امارات قائم ہے۔ خلافت کانظام متروک ہوچکا ہے۔ خلافت اب گدی نشینی کے طور ہوتی ہے۔امارت بھی بس نام کی حد تک ہے دوسرا کوئی اسلام نظام نہیں ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے۔ عمومی طور دیکھتے ہیں کہ سائنس ،سیاست ، ٹیکنالوجی الغرض کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی ہو اس کا تقابل اسلام سے کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ناقدین اور معترضین کہتے ہیں کہ اسلام جدید دنیا کی بات نہیں کرتا ہے۔ دونوں طرف ابہام ہے۔ مذہب اور سائنس دو الگ الگ ڈومین ہیں۔ دونوں کی الگ الگ غرض وغایت ہے۔ دونوں کا کوئی تقابل نہیں ہے۔
سائنس کی غرض و غایت قانون قدرت میں مداخلت کرکے کھوج کاری ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ قدرت کے خزانوں میں کیا رکھا ہے اور انسان ان خزانوں سے کیسے مستفید ہوسکتا ہے۔ جس کے مظاہر ہم آج کی جدید دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ سائنس کی بدولت انسان نے قدرت کے کئی راز پائے ہیں اور مستفید ہو رہا ہے۔ سائنس کو مذہب کے ساتھ جوڑنا اور تقابل کرنابھی بددیانتی پر مبنی ہے۔ سائنس کی الگ ڈومین ہے، اس میں مذہب کو شامل کیا ہی نہیں جا سکتا ہےاور نہ ہی کوئی مذہبی تشریح سائنس کےلئے مناسبت رکھتی ہے۔ سائنس کو مذہب کے تابع کرنے خواہش ماسوائے احقمانہ پن کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
مذہب کی غرض وغایت صرف اور صرف اخلاقیات کی تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ مذہب کا کوئی منہاج نہیں ہے۔ اسلام کی بات کی جائے تو جیسے ہم اسلامی نظام کہتے ہیں وہ اسلام کا اخلاقی نظام ہے۔ جس کا نفاد ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ اس پر اسلام کے اخلاقی نفاد کا اطلاق ہوتا ہے۔جس کا پہلا درجہ( قانون) نماز پڑھنا، روزے رکھنا،زکواۃ دینا اور حج کرنا ہے۔ان تمام ارکان کا بنیادی اور اولین مقصد ہے کہ اسلام کے اخلاقی نظام کے نفاد کے بعد جھوٹ، فریب، گناہ جو عمل اسلام اخلاقی نظام میں ممنوع ہیں ان سے بچا جائے۔
یعنی امر بالمعروف والنهي عن المنكر یہی اسلامی نظام کا منبح ہے۔اس کے علاوہ کوئی اسلامی نظام نہیں ہے۔ نفاد بھی اسی نظام کا مقصود ہے۔ بانی اسلام ﷺ نے بھی اسلام کے اخلاقی نظام کےلئے ہی جنگیں کیں اور مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ سیاست، سائنس، سماجی علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مذہب کو تلاش کرنا اور مذہبی کتب سے تاویلیں دینا یا تلاش کرنا مذہب کے منہاج کو بگاڑنا اور غرض وغایت سے انحراف ہے۔ اسلام کا یہ اخلاقی نظام مشکل ہے اس لئے مولوی نےبڑی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ اس کو ریاستی نظام کے طور پیش کیا ہےاور اسلام کو ہتھیار بنا کر سیاست کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو ابہام میں مبتلا کیا ہے، ایک طرف اسلامی نظام کے نعرے اور دوسری طرف عبادات پر زور دیا جاتا ہے۔ مساجد محض عبادت گاہ بنا دی گئی ہے، اخلاقی نظام کی بات بھی نہیں کی جاتی ہے البتہ کھلا دھوکا دیا جاتا ہے۔