پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں یا نہ دیں؟ متحدہ قومی موومنٹ میں شدید تقسیم

پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں یا نہ دیں؟ متحدہ قومی موومنٹ میں شدید تقسیم
وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے یا نہ دینے کے معاملے پر متحدہ قومی موومنٹ میں اس وقت شدید تحفظات اور تقسیم ہے۔

وقار ستی نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے کیمپ سے اطلاعات ہیں کہ فروغ نسیم اور خالد مقبول صدیقی کے گروپ کی خواہش ہے کہ حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے جبکہ وسیم اختر، خواجہ اظہار الحق اور عامر خان کی خواہش ہے کہ ہمیں اب اپوزیشن کیساتھ جانا چاہیے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے جو نمبر شو کئے وہ اب 169 ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 162 حزب اختلاف کی جماعتوں کے اپنے بندے ہیں جبکہ علی نواز شاہ، شاہ زین بگٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور اسلم بھوتانی کے ساتھ آنے سے یہ تعداد 169 ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز ایک اور اہم رکن بھی اپوزیشن کیساتھ شامل ہونے کا اعلان کرنے جا رہا ہے۔ ان کا تعلق مسلم لیگ فنکشنل سے بتایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نمبر گیم میں ابھی تک ایم کیو ایم، طارق بشیر چیمہ سمیت ق لیگ کے دیگر لوگ، اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین شامل نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے 29 منحرف اراکین اسمبلی سے میری خود ملاقات ہوئی ہے۔ ان میں ایسے اراکین کا بھی گروپ شامل ہے جو آزاد حیثیت سے انتخابات جیتے لیکن بعد ازاں انھیں پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی اور ن لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ شاید ان کے ووٹ کی ضرورت ہی پڑے۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وقار ستی نے کہا کہ اس وقت ایم کیو ایم سے معاملات طے ہو رہے ہیں۔ انھیں پیپلز پارٹی کی جانب سے گورنرشپ، سندھ کابینہ میں مزید وزرا شامل کرنے، حیدر آباد اور کراچی کی ایڈمنسٹریشن دینے اور مستقبل میں بھی ساتھ چلنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے قائدین سے جب آف دی ریکارڈ پوچھا گیا کہ آپ نے تو ایم کیو ایم کو سب کچھ دینے کی آفر کر دی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے جو لوگ بھی پہنچے وہ متحدہ کی نشستوں سے جیت کر آئے ہیں۔ اگر بیرونی مداخلت نہ ہو تو ہم تو ایم کیو ایم کیساتھ چلیں گے۔