جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلہ؛ 'یہ صورت حال ہم 1997 میں دیکھ چکے ہیں'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلہ؛ 'یہ صورت حال ہم 1997 میں دیکھ چکے ہیں'
ججز ایک دوسرے کے خلاف رٹ فائل کرنا شروع کر دیں گے یا ایک دوسرے کو ہدایات دینا شروع کر دیں گے تو پھر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ معاملہ کہاں جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بہت عرصے سے سپریم کورٹ کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھا رہے تھے اور ان کے یہ اعتراض حق بجانب بھی ہیں۔ عدالتی اصلاحات ترمیمی بل بہت پہلے آ جانا چاہئیے تھا اور اس میں سپریم کورٹ کو بھی مشاورتی عمل میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی بی ترمیم قابل اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح نیب کے اختیارات کم کرنا بھی درست عمل تھا مگر وہ کام بھی بہت دیر سے کیا گیا تھا۔ یہ کہنا ہے قانون دان حیدر وحید کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں نادیہ نقی نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا، میں اسے بہت خوش آئند سمجھتی ہوں۔ محسن داوڑ کی مجوزہ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے الیکشن سے متعلق فیصلے پر بھی ریویو فائل کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمان نے جس طرح کا رویہ آج دکھایا اسے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟ دیکھنا یہ ہو گا کہ سپریم کورٹ اس قانون سازی سے متعلق کس طرح کا ردعمل دیتی ہے۔ قابل غور ہے کہ پارلیمان میں آج بلاول بھٹو نے جنرل پاشا، جنرل ظہیر، جنرل فیض کے نام تو لیے لیکن جنرل باجوہ کا نام نہیں لیا۔

اعزاز سید نے کہا کہ عدالتی اصلاحات کا یہ معاملہ کل سینیٹ میں جائے گا جہاں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اگر 'حقیقی' حکومت چاہے گی تو بل پاس ہو جائے گا۔ اتحادی حکومت کے بڑے کردار جنرل فیض کے احتساب کی بات کرتے ہیں مگر جنرل باجوہ کا نام نہیں لیتے۔ دوسری جانب عمران خان جنرل باجوہ کا نام لیتے ہیں مگر جنرل فیض کے احتساب کی بات نہیں کرتے۔ اصول کا تقاضا ہے کہ تمام ذمہ داروں کے نام لیے جائیں۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آج کے فیصلے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے یہ ہم 1997 میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینیئر جج ہیں، مستقبل کے چیف جسٹس ہیں۔ ان کے اعتراضات پہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال دھیان کیوں نہیں دیتے۔

'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی پر پیش کیا جاتا ہے۔