تربت سے کوئٹہ جانے والی بس کھائی میں جا گری، 28 مسافر ہلاک

نیشنل پارٹی کے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی فدا حسین دشتی نے اس واقعہ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے صوبائی حکومت اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے کوئٹہ اور تربت کے درمیان سفر کرنے والی تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسوں کی چیکنگ اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

تربت سے کوئٹہ جانے والی بس کھائی میں جا گری، 28 مسافر ہلاک

بدھ کی شام تربت سے کوئٹہ جانے والی مسافر بس بسیمہ کے نزدیک رات گئے پل سے گر گئی جس کے نتیجے میں 28 مسافر ہلاک اور 22 زخمی ہو گئے ہیں۔

ہلاک مسافروں میں تربت کے معروف سوشل ورکر اور غریب بچوں کو مفت تعلیم دلانے والے ادارے 'سکول فار آل' کے سرپرست درویش عزیز دشتی بھی شامل ہیں۔ بدقسمت بس میں تربت یونیورسٹی کے دو پروفیسر اور مکران میڈیکل کالج تربت کے دو طالب علم بھی سفر کر رہے تھے جو ہلاک ہو گئے ہیں۔

یہ مسافر بس بدھ کی شام 6 بجے کے قریب تربت سے کوئٹہ جانے کے لیے نکلی جسے رات گئے بسیمہ کلغی کے مقام پر حادثہ پیش آیا۔

ایک زخمی مسافر کے مطابق وہ جس بس میں سفر کر رہے تھے اس کے ٹائر ناقابل سفر تھے۔ راستے میں پنجگور پہنچنے پر بس کے دو ٹائر پنکچر ہو گئے تھے جبکہ ڈرائیور حد سے زیادہ سپیڈ لگا رہا تھا جسے منع کرنے پر بھی وہ باز نہیں آیا۔

اس مسافر کے مطابق رات کے کسی پہر اوور سپیڈ کے سبب بس کا شاید ٹائر برسٹ ہوا اور ڈرائیور سے بے قابو ہو کر وہ پل سے نیچے گر گئی۔

ذرائع کے مطابق مسافر بس کو صبح ہونے پر پل سے نیچے گرے دیکھا گیا۔ اس کے بعد مقامی لوگوں اور وہاں پر سفر کرنے والے دیگر مسافروں نے زخمیوں اور لاشوں کو بسیمہ کے مقامی ہسپتال پہنچایا تاہم کافی وقت گزرنے کے سبب متعدد مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تربت اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنے والی بسیں زیادہ تر ناکارہ اور ناقابل سفر ہوتی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی فدا حسین دشتی نے اس واقعہ پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے صوبائی حکومت اور ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے کوئٹہ اور تربت کے درمیان سفر کرنے والی تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بسوں کی چیکنگ اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کوئٹہ ٹو تربت روٹ پر چلنے والی مسافر بسوں کی شکایات عام ہیں۔ ان کے ڈرائیورز کے غلط رویے اور اوور سپیڈ کی اس سے پہلے بھی کئی بار مسافروں نے شکایات کی ہیں۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ روٹ پر سفر کرنے والی بس کمپنیاں غیر مقامی ہیں یعنی کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ مقامی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو اس روٹ پر سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں جبکہ خود ان کی بسیں پرانی اور ناقابل سفر ہیں۔ کراچی روٹ پر سفر کے بعد یہ کمپنیاں اپنی ناکارہ بسیں تربت روٹ پر استعمال کرتی ہیں جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں جبکہ وہ سیاسی اور کاروباری اثر پذیری کے باعث بھی طاقت ور ہوتے ہیں۔

سماجی تنظیموں کے مطابق کچھ عرصہ قبل دو مقامی ٹرانسپورٹرز نے کوئٹہ روٹ پر بسیں نکالنے کی کوشش کی لیکن کوئٹہ میں رہنے والے غیر لوکل ٹرانسپورٹرز نے دباؤ اور رکاوٹیں ڈال کر انہیں روک دیا۔

اس سانحہ کے بعد تربت سول سوسائٹی کے کنوینر کامریڈ گلزار دوست نے کوئٹہ ٹو تربت اور کراچی سڑک کو سنگل وے سے ڈبل وے اور کوئٹہ تربت روٹ پہ چلنے والی مسافر بسوں کے لیے سخت سفری ضابطہ بنانے اور پرانی بسوں پر پابندی عائد کرنے کے لیے 11 اگست سے کراچی ٹو کوئٹہ پیدل لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔

کامریڈ گلزار دوست نے ایک ویڈیو پیغام میں 11 اگست کو کراچی پریس کلب سے بلوچستان اسمبلی تک لانگ مارچ کی تاریخ دی ہے۔ ان کے مطابق 704 کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کے بعد وہ بلوچستان اسمبلی کے سامنے ان مطالبات کے حق میں دھرنا دیں گے۔