گلزار احمد بطور چیف جسٹس، وقار سیٹھ کی موت، اور راشد منہاس روڈ کا سنیما ہال

گلزار احمد بطور چیف جسٹس، وقار سیٹھ کی موت، اور راشد منہاس روڈ کا سنیما ہال
جب جسٹس گلزار احمد پاکستان کے چیف جسٹس بنے تو کچھ لوگ پریشان تھے۔ انہوں نے اس غیر قانونی طریقہ کار کا نوٹس لینا شروع کر دیا تھا جس کے ذریعے کنٹونمنٹ کی ایسی زمین جو فوج کے استعمال میں لانے کی گنجائش یا ضرورت نہیں تھی، وہ حکومت کو واپس کرنے کی بجائے اس کے پلاٹ بنا کر شہریوں کو بیچے جا رہے تھے۔ انہوں نے کراچی کی راشد منہاس روڈ پر فوجی زمین کے اوپر ایک سنیما ہال کا بھی نوٹس لیا۔ انہوں نے ایسی غیر قانونی تعمیرات پر ایک مفصل رپورٹ طلب کی۔

29 نومبر 2019 کو، چیف جسٹس کا حلف اٹھانے سے کچھ ہی دیر پہلے، جسٹس گلزار نے جسٹس عائشہ ملک کی دعوت پر تیسری خواتین ججز کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ خواتین ججز کا جنس پر ایک نظریہ بنانے کے حوالے سے ہوئی اس کانفرنس کا دعوت نامہ ملنے پر وہ بہت کنفیوز ہو گئے تھے۔ ناظرین کے ساتھ مل کر ہنسنے کے بعد انہوں نے کہا، "میں بہت متجسس تھا۔ Alice in the Wonderland کی طرح متجسس"۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑی محنت سے ایک تقریر لکھی اور فیصلہ کیا کہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ "یہ خواتین کچھ سے بڑھ کر کچھ ہیں۔ اور یہ مجھ آدمی سے کچھ کروانا چاہتی ہیں"۔ وکلا جو یہ منظر دیکھ رہے تھے، ان میں سے شاید ہی کوئی ہو جو اس وقت سمجھا ہو کہ wonderland کے اس دورے پر وہ کہاں لے جائے جا رہے ہیں، اور قانون کے حوالے سے وہ تمام خطرات جو چیف جسٹس صاحب مول لینے کو تیار تھے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود تسلیم کر رہے تھے کہ وہ کنفیوز تھے۔

سالوں سے نظر انداز چلے آ رہے شہر کراچی کا ایک بیٹا اب چیف جسٹس تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 140-A کے تحت دائر مقامی حکومتوں کی بحالی پر خصوصی توجہ دے گی جس کے تحت صوبائی حکومتیں فنانس کمیشن کو مقامی حکومتوں کی سطح پر لے جانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے بجٹ کی ذمہ داری اور اختیارات کو ان تک منتقل کریں گی۔

اس معاملے پر کبھی فیصلہ نہیں ہوا اور بااختیار مقامی حکومتیں اب بھی سندھ میں کہیں نہیں، بشمول کراچی شہر کے۔ ہمارے حالیہ چیف جسٹس صاحبان نے اپنے ادوار من مرضی کے مطابق گزارے ہیں، مثلاً سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو ڈیم انجینیئر اور جیلوں میں کھانے کا ذائقہ چیک کرنے والے ملازم میں تبدیل کر لیا۔ جسٹس گلزار خود کو کراچی میں بلڈنگ کنٹرولر کے طور پر دیکھتے تھے۔

بجائے قومی فنانس ایوارڈز کی طرح صوبائی فنانس ایوارڈز میں دس گنا اضافے کا حکم دینے کے، بجائے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا حکم دینے کے، انہوں نے سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ یہ اختیارات اوپر کی طرف آئیں، اور ان کی ذات میں مرتکز ہو جائیں۔

اگست 2020 میں، جب وہ کراچی میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں گرنے والے بل بورڈز پر لیے گئے سو موٹو نوٹس کے ایک کیس میں بنچ کی سربراہی کر رہے تھے، جسٹس گلزار نے پوچھا کہ کیا ایک بہت بڑا بل بورڈ اب بھی راشد منہاس روڈ والے سنیما گھر پر لگا ہوا تھا۔ انہوں نے سب کو یاد دہانی کروائی کہ صرف یہ بل بورڈ نہیں، وہ سنیما گھر بھی غیر قانونی تھا جس پر یہ لگا ہوا تھا۔

کراچی میں، جسٹس گلزار چاہتے تھے کہ ان کے بچپن میں نظر آنے والے بنگلے واپس آ جائیں اور ان کے ایئر پورٹ سے گھر کے رستے میں نظر آنے والے بھدے ٹاور جن میں مڈل کلاس شہری رہتے تھے صفائی دیں کہ یہ یہاں کیوں تھے، بھلے سے شہریوں کے لئے رہنے کی جگہ کی قلت ہو۔ پارکس کے حوالے سے بھی ان کے معیارات بہت بلند تھے اور کراچی کے الہ دین پارک کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کا کمرشل استعمال کیوں کیا جا رہا ہے، حالانکہ لیز کے کاغذات میں اس کی گنجائش تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس کو گرا دیا جائے، اور یہ درخواست ماننے سے انکار کر دیا کہ ان معاملات کو حکومت پر چھوڑا جائے۔ جہاں پہلے بچے پانی کی گھیسیاں لے رہے تھے، اب وہاں نشئی لوہا چوری کر کے اپنی اگلی پڑیا کے پیسے پورے کر رہے ہیں۔

جب نسلہ ٹاور گرانے اور گجر نالے کی اطراف کو انسانوں سے پاک کرنے کا حکم دیا گیا تو راقم نے اپنے قارئین کو فوجی زمین والا وہ پہلا حکم یاد کروایا تھا جس کے بارے میں انہوں نے سوال کیا تھا اور کنٹونمنٹ اور فوجی زمین کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی جو کہیں گم ہو چکی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد، جسٹس گلزار نے فوج کی ملکیت میں تمام زمینوں پر تمام کاروباری سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ روک دی گئی ہیں۔ نتیجتاً پہلے جو عمارت فالکن مال کہلاتی تھی، جہاں کسی زمانے میں ایک ایئر بیس تھی اور اب استعمال نہیں کی جاتی، وہ 'ایئر وار کالج انسٹیٹیوٹ' بن گیا۔ پھر ہماری توجہ دوبارہ نسلہ کو گرانے پر مرکوز ہو گئی۔ اور چیف جسٹس صاحب کا یہ حکم فراموش کر دیا گیا کہ وہ تمام زمین جو اب فوجی استعمال میں نہیں تھی یہ حکومت کو واپس کی جانی تھی۔

مئی 2020 میں انہوں نے سندھ کی کورونا پالیسی کو وفاق کے اوٹ پٹانگ اقدامات کے تابع کیا اور صوبے کو حکم دیا کہ وہ عید سے پہلے شاپنگ مالز کھولنے کے لئے اسلام آباد کی اجازت طلب کرے۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ عدالت میں موجود لوگوں کو چاہے ضرورت نہ ہو لیکن کچھ لوگوں کو عید پر شاپنگ کرنا ہوتی ہے، اور یہ بھی کہا کہ ویک اینڈ پر مالز بند کرنا امتیازی سلوک تھا کیونکہ تمام دن برابر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ کووڈ 19 پاکستان میں 'غالباً عالمی وبا نہیں تھا'۔

عید کے بعد جب متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اب کووڈ کو سنجیدگی سے لیا جائے، اور ویک اینڈ پر شاپنگ مالز کھلے رکھنے کا حکم واپس لے لیا اور تاویل یہ کی کہ "اب عید گزر چکی ہے"۔

19 مئی 2020 کو جب سپریم کورٹ میں روزانہ کورونا سے متعلق سو موٹو کیسز کی سماعتیں جاری تھیں، جسٹس گلزار نے ایک ٹی وی چینل کے ٹوئٹر ہینڈل کے مطابق یہ تبصرہ کیا تھا کہ: "میں بہت سی کمپنیوں کا قانونی مشیر رہ چکا ہوں؛ آخر میں تمام غلط پالیسیوں کی وجہ سے بند ہو گئیں"۔ کیا وہ ہمیں کوئی پیغام دینا چاہ رہے تھے؟

سپریم کورٹ بار کونسل کی انتخابی مہم کے دوران ایک تقریر میں سینیئر وکیل حامد خان نے کہا کہ 'گلزار ڈاکٹرائن' یہ تھی کہ اگر کوئی کیس اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو گزند پہنچاتا ہو تو اسے سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا جاتا۔ وقار سیٹھ کی سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں تقرری کی درخواست ان کی موت تک سماعت کے لئے مقرر ہی نہیں ہوئی۔ شوکت صدیقی ریٹائر ہو گئے لیکن ان کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ خیبر پختونخوا میں لوگوں کو غیر قانونی طور پر بند رکھنے کے لئے بنائے گئے عقوبت خانے آج بھی قائم ہیں، کیونکہ انہیں بند کرنے کا جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ سپریم کورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ خصوصی عدالت کی جانب سے مشرف کو دی گئی سزا کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اپنے دائرۂ کار سے غیر معمولی طور پر تجاوز کرتے ہوئے معطل کر دیا گیا، اس مضحکہ خیز حکم کے خلاف اپیل تاحال سپریم کورٹ میں توجہ کی منتظر پڑی ہے۔ جس شخص نے یہ آرڈر تحریر فرمایا، اب سپریم کورٹ میں ترقی پا چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک عدد 'curative review' بھی توجہ کا طالب ہے۔

جسٹس گلزار یکم فروری کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اگر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایئرپورٹ سے گھر کے راستے میں انہیں راشد منہاس روڈ پر وہ سنیما ہال وہیں کا وہیں کھڑا نظر آئے گا اور اس پر لگا بل بورڈ بھی۔ یا پھر وہ اسلام آباد میں اپنے بہت سے پلاٹوں میں سے کسی پر گھر بنا کر وہاں رہنا چاہیں گے جن کی بیلٹنگ کے لئے انہوں نے اپلائی کیا اور قرعہ ان کے نام کا نکل بھی آیا؟ وہ پلاٹ جو کسی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھے، لیکن انصاف کے نام پر جسٹس گلزار کے نام پر الاٹ ہوں تو سب چلتا ہے؟




عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔