’ہم مصروف تھے‘ والوں کی مصروفیت کا چھوٹا سا پوسٹ مارٹم

’ہم مصروف تھے‘ والوں کی مصروفیت کا چھوٹا سا پوسٹ مارٹم
I. 2018 بھی گزرے برسوں کی طرح قصہ پارینہ ہونے کو ہے لیکن اس سال کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک مہا پُرش نے کہا تھا کہ یہ ’تبدیلی‘ کا سال ہے۔ خلقِ خدا نے بھی دیکھا کہ کیسے پاکستان کے طول و عرض میں تبدیلی کسی وبا کی طرح پھیل گئی اور ایک نئی حکومت نے جنم لیا۔ آج وہ مبارک دن ہے جب اس حکومت کے 100 دن مکمل ہوئے اور اخبار میں ایک اشتہار دیا گیا کہ ’ ہم مصروف تھے‘۔

پہلے تو اس سطر کو پڑھ کر کسی سطحی سوچ رکھنے والے کی شرارت محسوس ہوئی کہ کام کرنے والے کو کب بتانے کی ضرورت پڑتی پھر دیکھا تو نیچے لکھا تھا ورق الٹائیں۔ اگلے صفحہ پر حکومتی ’بیانات‘ کی ایک لمبی فہرست تھی تو معلوم پڑا کہ گویا زبان درازی مطلب بیانات بھی ’کارکردگی‘ جانچنے کا ایک معیار ہیں۔ ان بیانات کی چکا چوند سے حقائق کو مسخ کرنے کا انتظام کیا گیا لیکن شاید حکومت کو معلوم نہیں کہ دس از نیو پاکستان!! جیسے ہی انگریزی اشتہار کو سرسری سا دیکھا تو معلوم پڑا کہ جو بیانات اوپر درج ہیں ان کی ایک کاپی چھوٹے الفاظ میں نیچے بھی درج ہے یعنی یہاں بھی ڈنڈی ماری گئی۔



سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت

خیر پہلی خبر جس نے متوجہ کیا وہ یہ تھی کہ سعودیہ عرب کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ گوگل بھائی کا سہارا لیا تو معلوم پڑا کہ یہ خبر 21 ستمبر کو اخبارات کی زینت بنی لیکن پھر اوائل اکتوبر میں چین کے آنکھیں دکھانے پر ایک پریس کانفرنس کر کے اس سے یو ٹرن لے لیا گیا۔ ساتھ ہی سعودیہ سے ایک بلین ڈالر پہنچنے کا بیان بھی درج ہے لیکن سٹیٹ بینک کا بیان کہ ان کو استعمال میں کسی صورت نہیں لانا درج نہیں۔

میڈیا کی آزادی

دوسرا بیان اشتہار میں پڑھ کر تو ہاسا ہی نکل گیا کیونکہ اس بیان کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ تحریکِ انصاف میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائے گی۔ اس کا اندازہ آپ سب حالیہ ’financial crunch‘ سے لگا سکتے ہیں۔

ایل این جی کی قیمتیں

ایک اور بیان جو اس اشتہار کی زینت بنا وہ 25 ستمبر کی خبر ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے ایل این جی معاہدات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکی صداقت یہ ہے کہ آج تک یہ نہ ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔

بھارت سے امیدیں

اسی اشتہار میں آگے درج ہے کہ وزیراعظم نے امید ظاہر کی ہے کہ بھارت تعلقات میں بہتری لائے گا۔ اب یہ کس زاویہ سے 100 دن کی کارکردگی میں آتا ہے یہ تو معلوم نہیں پر یہ معلوم ہے کہ بھارت نے سارک کانفرنس میں شرکت سے نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ پاکستان سے مذاکرات سے بھی چٹا انکار کر دیا ہے۔

مذہب کے نام پر تشدد

اشتہار میں یہ بھی بیان آویزاں ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد ختم ہونا چاہیے پر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آیا یہ تحریک لبیک پاکستان سے معاہدہ کے بعد کا بیان ہے یا پہلے کا ہے۔

وزیر اعظم شکایات سیل

ایک اور کامیابی جو اس اشتہار میں بیان کی گئی وہ وزیر اعظم شکایات سیل کا افتتاح ہے لیکن حکومت شاید بھول گئی کہ پرانے مال کو نئی پیکنگ میں فروخت کرنے سے عوام کی یادداشت کسی گواچی بھینس کی طرح کھو نہیں جاتی۔ یاد بہرحال رہتا ہے کہ یہ تو پہلے سے موجود تھا۔

چین کے چھ ارب ڈالر

اردو اشتہار میں چین سے چھ ارب ڈالر کے پیکج کا امکان ظاہر کیا گیا لیکن یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ ایسا ہوا نہیں یا چین نے بتانے سے منع کیا ہے۔

اب وعدے بھی کارکردگی ہو گئے ہیں، مگر دو صفحوں کا اشتہار سادگی کیسے ہے؟

بیانات تو اور بھی ہیں جیسے سرسبز کراچی کا وعدہ وغیرہ لیکن آخر میں سادگی، اصلاحات اور قانون کی حکمرانی کے بیان پر نظر پڑی کہ یہ بھی 100 دن پلان کا حصہ تھا۔ اب اخبار میں دو صفحوں کا اشتہار کس اینگل سے سادگی کی علامات کو ظاہر کرتا ہے یہ اگر کسی کو معلوم پڑے تو مجھے بھی بتلائیے گا۔