یہ ایک چھوٹا سا فقرہ تھا، لیکن اس فقرے میں ایک شہر کی موت کی خبر چُھپی ہوئی تھی۔ طاہر ملک نے یہ فقرہ بولا تو میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کہ کیا وہ واقعی سنجیدہ ہے؟ طاہر ملک نے فقرہ دہراتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مجھے بار بار کہہ رہا ہے کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہ شہر چھوڑ دو۔ ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے والے میرے پیارے دوست کا چہرہ آج سنجیدہ تھا۔ اس کی آنکھیں اداس تھیں۔ ان آنکھوں میں پورے شہر کی اداسی سمٹی ہوئی تھی۔ ایک دوست زبیر نواز چھٹہ کی بیٹی کی شادی پر ہم بہت سے پرانے دوست کافی عرصے بعد ایک دوسرے کو ملے تھے۔ طاہر ملک پنجاب یونیورسٹی لاہور میں میرا سینیئر تھا اور صحافت میں بھی مجھ سے سینیئر ہے۔ بہت سال پہلے وہ امریکا چلا گیا تھا۔ وہاں کی شہریت حاصل کرنا اور ڈالر کمانا اس کے لیے مشکل نہ تھا۔ لیکن لاہور کی محبت اسے واپس کھینچ لائی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب بھی وطن کی محبت میں امریکا چھوڑ کر واپس چلے آئے تھے۔
میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تو طاہر ملک اور قاسمی صاحب کو ملنے کی خواہش دل میں ہوتی ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک مل جائے تو سمجھتا ہوں پورے لاہور سے مل لیا۔ اس مرتبہ طاہر ملک نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے اس کا گلا خراب ہے۔ جب بھی وہ ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ لاہور کی فضا میں سانس لینے کا مطلب ہے کہ آپ سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہ شہر چھوڑ دیں۔ طاہر ملک نے مجھے مخاطب کر کے پوچھا؟ میں لاہور کو چھوڑ کر کدھر جاؤں؟ دوسرے الفاظ میں لاہور مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں لاہور کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ ایک اور صحافی دوست سعید قاضی بھی گفتگو میں شامل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ لاہور کے آسمان پر رات کو تارے نظر نہیں آتے۔ وہ پچھلے دنوں چکوال گیا تو رات کو آسمان پر تارے دیکھ کر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ لاہور چھوڑ دے۔ سعید قاضی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ اسلام آباد کے آسمان پر تو تارے نظر آتے ہوں گے؟ میرا جواب سننے سے پہلے ہی کہنے لگا کہ میں اسلام آباد منتقل ہونا چاہتا ہوں۔
بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث لاہور میں ہر دوسرا شہری ہجرت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ طاہر ملک اور سعید قاضی کی گفتگو سن کر میری نظروں کے سامنے مستنصر حسین تارڑ کا چہرہ گھومنے لگا۔ تارڑ صاحب نے اپنی کتاب '' لاہور آوارگی‘‘ میں اردو زبان کی عظیم ادیبہ قرة العین حیدر کے ساتھ اپنے ایک مکالمے کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل لاہور کا سفر نامہ ہے۔ ایک دفعہ تارڑ صاحب نے قرة العین حیدر کو لاہور شہر کی سیر کرائی۔ کتاب کی ابتداء میں ہی تارڑ صاحب نے ''قرة العین حیدر کا لکھنو اور میرا لاہور‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں لکھا ہے کہ جب میں عینی آپا کو اندرون لاہور کے گلی کوچوں میں لے کر گیا تو انہوں نے کہا یہ تو ہو بہو پرانا لکھنؤ ہے۔ اس پر مستنصر حسین تارڑ نے ڈرتے ڈرتے جواب میں کہا، '' عینی آپا لکھنو اور لاہور میں ایک فرق ہے۔ وہ لکھنو تو کب کا مر چکا… اور یہ لاہور زندہ ہے۔‘‘
تارڑ صاحب کو جس لاہور کی زندگی پر ناز تھا وہ لاہور آج سسک سسک کر مر رہا ہے۔ لاہور کے شہری ہوا میں نہیں بلکہ ہر طرف چھائے زہریلے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں۔ اس دھوئیں کا سائنسی نام سموگ ہے۔ سموگ کبھی نظر آتی ہے اور کبھی نظر نہیں آتی۔
لاہور کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ پھر باغ اجڑ گئے، ان پر ہاؤسنگ اسکیمیں بن گئیں۔ انسانوں نے اپنے گھر بنانے کے لیے پرندوں کو بے گھر کر دیا۔ بلبل، مینا، چڑیاں اور بہت سے دیگر خوبصورت پرندے لاہور سے ہجرت کر رہے ہیں۔ شہر میں ہر طرف کوے اور چیلیں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوے اور چیلیں شہر کی موت کا انتظار کر رہی ہیں۔ تاکہ وہ مردہ شہر کی لاش کو نوچ سکیں۔
میں لاہور میں بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی ملا۔ صرف چودھری اعتزاز احسن نے مجھے اپنی ایک نظم کے ذریعے شہر میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر تشویش سے آگاہ کیا۔ باقی سب حکومت اور اپوزیشن والے ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف تھے۔ ان سیاسی لوگوں نے اپنے صاف ستھرے لباس پر گندگی سے بھری زبانیں سجا رکھی ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لاہور کے آسمان سے تارے کیوں غائب ہوگئے؟ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ جو شہر پاکستان کا دل کہلاتا تھا، اس شہر میں صاف پانی اور صاف ہوا، خواب کیوں ہوگئے؟
کیا وہ نہیں جانتے کہ اگر لاہور بیمار ہے تو پاکستان کا دل بیمار ہے اور اگر دل کی دھڑکنیں ماند پڑ گئیں تو ایک ایٹمی طاقت کیسے قائم رہے گی؟ کبھی اس شہر پر طنز کیا جاتا تھا کہ ''اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ آج لاہور کرپٹ اور ظالم حکمران طبقے کا قیدی ہے، جس کی نا اہلی کے باعث بارشوں کے موسم میں شہر ڈوب جاتا ہے اور بارش نہ ہو تو سموگ کے باعث شہر کا سانس رکنے لگتا ہے۔ لاہور، لاہور نہ رہا، پنجاب پنج آب نہ رہا۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پر آج صرف تین دریا بہتے ہیں۔ لاہور کی پہچان راوی تھا۔ اس دریا میں آج گٹروں کے گندے پانی کی نالیاں نظر آتی ہیں۔ راوی کے پل سے دریا کو دیکھیں تو دریا نہیں بلکہ دریا کی لاش نظر آتی ہے۔
یہی حال دریائے ستلج کا ہے۔ 1960ء میں ان دونوں دریاؤں کا پانی ہندوستان کو مل گیا تھا۔ اب ان دریاؤں میں پانی اسی وقت آتا ہے جب ہمسایہ ملک ان میں اضافی پانی چھوڑتا ہے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر عمران خان تک، کسی حکمران نے ان دریاؤں کو زندہ رکھنے پر توجہ نہیں دی۔ بلکہ ان مردہ دریاؤں کو بھی لوٹا گیا۔ کبھی ان دریاؤں کی ریت چوری کی جاتی ہے تو کبھی ان دریاؤں کی زمین پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ بہت آگے ہیں۔ ایئر کوالٹی کے عالمی انڈیکس کے مطابق، اس وقت دنیا کا سب سے آلودہ شہر لاہور ہے۔ دہلی دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈھاکہ چوتھے، تہران ساتویں، کلکتہ نویں اور ممبئی دسویں نمبر پر ہے۔ کچھ دن پہلے تک کراچی بھی دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں شامل تھا۔ لیکن جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو کراچی کا نمبر نیچے چلا جاتا ہے۔
اس طرح آلودہ ترین شہروں میں کبھی لاہور پہلے نمبر پر آ جاتا ہے، کبھی دہلی پہلے نمبر پر آ جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں لیکن فضائی آلودگی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ لاہور اور دہلی سمیت جنوبی ایشیا کے تمام بڑے شہروں کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک نظر آتی ہے۔ کروڑوں نفوس کے ان شہروں میں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا دھواں، اس دھوئیں میں شامل ہو جاتا ہے جو صنعتی اداروں کی چمنیوں سے خارج ہوتا ہے اور رہی سہی کسر اس وقت نکلتی ہے جب کسان توڑی یعنی پرالی کو آگ لگاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں فضا کو آلودگی سے بچانے کے لیے قانون سازی ہوتی ہے اور پھر قانون پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ملین ٹری سونامی کا شور تو بہت سنائی دیتا ہے لیکن جب ماحولیاتی تحفظ کے لیے گلاسگو میں عالمی کانفرنس ہوتی ہے تو پاکستانی وفد اس وقت اہم عالمی معاہدوں پر دستخط کی بجائے آپس میں لڑنے لگتا ہے۔ آپس میں لڑنے والے حکمرانوں کو اپنے دم توڑتے شہروں کی سسکیاں سنائی نہیں دے رہیں۔
جب کورونا وبا کا عروج تھا تو ڈاکٹر کہتے تھے کہ گھروں کے اندر ایک دوسرے کے قریب نہ بیٹھیں۔ دور، دور بیٹھیں۔ پھر ڈینگی آیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ گھروں کے باہر نہ بیٹھو۔ فضائی آلودگی پھیلی تو ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ شہر ہی چھوڑ دو۔ آج ایک شہر کے ڈاکٹر یہ کہہ رہے ہیں، کل اور شہروں کے ڈاکٹر بھی یہی کہیں گے۔ لاہور کے کروڑوں لوگ ہجرت کر کے کہاں جائیں؟ حکمرانوں کو یقین نہ آئے تو لاہور کی فضا میں سانس لے کر دکھا دیں۔
پلیز اس شہر کی سسکیاں سنیں۔ یہ شہر موت کے قریب ہے۔ پاکستان کے دل کو مرنے سے بچا لو۔
حامد میر کا یہ کالم DW Urdu پر چھپا۔