2018 کے عام انتخابات سے پہلے ہی بہت سے لوگ جنرل قمر جاوید باجوہ کو تنبیہ کر رہے تھے کہ آپ عمران خان کو وزیراعظم بنانے لگے ہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ عمران خان آپ کو وہاں مارے گا جہاں آپ کو پانی بھی نہیں ملے گا۔
جیو ٹی وی کے میزبان شہزاد اقبال کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جب یہ واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ملک کا وزیراعظم بنانے لگی ہے تو میں نے عمران خان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ اس انٹرویو میں عمران خان ںے نواز شریف پر بہت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نواز شریف کو جنرل جیلانی سیاست میں لے کر آیا تھا، نواز شریف فوج کی پیداوار ہے۔ اسی رات کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھے آرمی ہاؤس میں بلایا۔ میں جب آرمی ہاؤس پہنچا تو اس وقت وہاں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے جو جنرل باجوہ کو بار بار تنبیہ کر رہے تھے کہ آپ عمران خان کو وزیراعظم بنانے لگے ہیں تو عمران خان کے بارے میں آج میں ایک پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ آپ کو وہاں مارے گا جہاں آپ کو پانی بھی نہیں ملے گا۔ ان صاحب نے اس بارے میں بہت تفصیل سے گفتگو کی تھی۔
حامد میر نے کہا کہ باجوہ صاحب کو عمران خان کے بارے میں اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے منع کیا تھا۔ اب اگر عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر ان پر تنقید کر رہے ہیں تو میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ پہلے سے متوقع تھا۔
سلیم صافی نے 24 اگست کو روزنامہ جنگ کے لیے لکھے گئے اپنے کالم میں شاید اسی جانب اشارہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
"2010 سے میں اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کو سمجھاتا رہا کہ وہ عمران خان کو مصنوعی طور پر لیڈر نہ بنائیں یا پھر نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر کو ٹھکانے لگانے سے باز رہیں۔ اس موضوع پر درجنوں جرنیلوں سے بات ہوئی لیکن افسوس کہ ان کے پاس اپنی چارج شیٹ ہوا کرتی تھی اور وہ ایسا تاثر دیتے تھے کہ جیسے عمران خان کو لیڈر بنا کر وہ پاکستان کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کو الگ سے سمجھاتے رہے کہ وہ پنگے نہ لیں لیکن ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ ارشاد بھٹی اور حامد میر صاحب گواہ ہیں کہ 2018 کے الیکشن سے چند روز قبل ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان کی منتیں کیں کہ ان کا ادارہ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے سے باز رہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جیسے غریبوں کی بات کون سنتا ہے لیکن یہ دونوں گواہ ہیں کہ رُخصت کے وقت میں نے ان سے عرض کیا کہ سر! جب فیصلہ ہو چکا ہے تو صرف سلیم صافی کیا اگر پورا میڈیا بھی مزاہم ہو تو عمران خان کو وزیراعظم بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ آپ لوگ اس بندے کے بارے میں حد سے زیادہ حسنِ ظن کا شکار ہیں یا پھر نواز شریف کی نفرت غالب آ گئی ہے لیکن ریکارڈ کے لیے میری یہ بات لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ شخص (عمران خان) آپ سے نواز شریف اور زرداری کو بخشوا دے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری تو کیا منظور پشتین وغیرہ نے بھی کبھی فوج کے بارے میں وہ لہجہ استعمال نہیں کیا، جو یہ شخص استعمال کر رہا ہے۔ معیشت، سفارت اور معاشرت تباہ کرنے کے بعد اب یہ فوج کے ادارے کے پیچھے پڑ گیا ہے اور اسے اس لئے تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا کہ وہ نیوٹرل بن کر اپنے آئینی کردار تک محدود ہو جائے بلکہ بلیک میلنگ کے ذریعے انہیں دوبارہ سیاسی کردار ادا کرنے اور اپنی سرپرستی کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کاش اس وقت اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور بھٹو کی مثالوں سے سبق لیتی اور لیڈر یا وزیراعظم بنوانے کا کام نہ کرتی لیکن افسوس کہ ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے عمران خان کی صورت میں اس نے نیا تجربہ کرنا ضروری سمجھا، جس کا خمیازہ آج ملک کے ساتھ ساتھ وہ بھی بھگت رہی ہے۔ اللہ کرے اب اسٹیبلشمنٹ اس تجربے سے سبق سیکھے اور سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنے آپ کو خالص آئینی اور دفاعی کردار تک محدود کر لے۔"