طالبان کی فتح نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ شاید اس کی وجہ وہ تیزی تھی جس سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ ہماری سڑکوں پر بہت سے لوگ خوشی سے جھوم اٹھے کیونکہ انہیں ایسے مواقع کم ہی میسر آتے ہیں۔ لیکن ذوق سے قطع نظر سب سے اہم رد عمل، افغانستان پر نظر رکھنے والوں کی طرف سے آیا کہ "ہم برسوں سے یہ دیوار پر لکھی تحریر آپ کو پڑھ کر سنا رہے تھے"۔ ایک پرانے ساتھی، جو کبھی واشنگٹن کے اقتدار کی راہداریوں میں گھوما کرتے تھے، نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے فوراً بعد مجھے کہا تھا کہ میں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ یہ جنگ آپ ہار جائیں گے۔
اس کے بیان کے پیچھے تاریخ، جغرافیہ اور مزاحمت کی روایت کا ادراک تھا۔ میرے جیسے کچھ لوگ لیکن تب بھی یقین رکھتے تھے کہ شاید اس بار نتائج مختلف ہوں۔ خود امریکہ کو بھی بالآخر ٹھہر کر سوچنا پڑا اور پھر طالبان بھی کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے صلح پر آمادہ تھے۔ کابل میں امریکی وائسرائے رمسفیلڈ کی جانب سے ان کی بار بار پیشکشوں کو مسترد کیے جانے کے بعد، کیونکہ اس کے خیال میں طالبان اب تاریخ کا حصہ تھے، طالبان نے اپنے کچھ پرانے طور طریقوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا۔ چٹانوں کے پیچھے سے چھوٹے چھوٹے جتھوں کی صورت میں اپنے دیکھے بھالے علاقے میں مزاحمت نے ماضی کی بہت سی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ اور پھر ظاہر ہے کسنجر کا یہ مشورہ بھی انہیں یاد ہوگا کہ انہیں جیتنے کے لئے صرف زندہ رہنا ہی کافی ہوگا۔ امریکی مدد سے وہ نہ صرف زندہ رہے بلکہ کامیاب بھی ٹھہرے۔
طالبان کے برعکس، نیٹو افواج نے تاریخ کی کسی کتاب چھوڑیے اپنے میدان جنگ کے کتابچوں پر بھی توجہ نہیں دی۔ بغاوت سے لڑنے کے لئے بھی دیگر تمام جنگوں ہی کی طرح لڑائی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو حکمتِ عملی سے زیر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ فوجی حکمت عملی میں، یہ دونوں طریقے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو ہی ایک دوسرے کے لئے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ جب تک کہ مشن مکمل نہ ہو جائے۔ کاؤنٹر انسرجنسی میں اسلحے سے کہیں زیادہ حکمتِ عملی جنگ کے نتیجے پر اثر انداز ہوتی ہے۔
اس پر عملدرآمد البتہ انتہائی مشکل ہے، خاص طور پر امریکہ جیسی ریاستوں کے لئے جن کے نزدیک ہر مسئلے کا حل ہتھوڑا ہے۔ امریکہ کی یہی غلطی اس کی شکست کے لئے کافی تھی اور عین ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر واشنگٹن نے میدان جنگ میں فتح کے تمام عزائم کو ترک ہی کر دیا ہو۔ 2005 میں، جب اس نے افغان نیشنل آرمی بنانے کرنے کا فیصلہ کیا، یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا کہ جب روایتی جنگ کے طور طریقوں میں دنیا کی بہترین فوج یہاں ناکام ہو چکی تھی تو پھر ایک اور روایتی فوج کھڑی کرنے کا کیا مقصد تھا؟ لیکن جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ پالیسی کس کے فائدے کے لئے بنائی گئی تھی۔
اگلے کئی سالوں کے دوران اس منصوبے نے بدنام زمانہ فوجی صنعتی کمپلیکس کی جیبوں میں اربوں ڈالر پہنچائے۔ چونکہ پیسہ کمانا ہی اصل مقصد تھا، افغان نیشنل آرمی کو ایک مہنگے ماڈل پر بنانا لازمی تھا۔ یہ ہائی ٹیک سپورٹ سسٹم کے بغیر خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی اور اس کو بنانے والے جانتے تھے کہ یہ ٹیکنیکل سپورٹ صرف دفاعی ٹھیکیداروں کے ذریعے ہی اسے پہنچائی جا سکتی تھی، لیکن انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ جب افغان نیشنل آرمی کو یہ سپورٹ نہ ملی اور اس کے بغیر یہ بکھری تو سب سے زیادہ دکھ اس کے افسران کو ہی ہوا ہوگا جنہیں لگتا تھا کہ یہ ٹیکنیکل سپورٹ انہیں ہمیشہ میسر رہے گی۔
دراصل افغان نیشنل آرمی ایک اہم خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے امریکی ڈیپ سٹیٹ کی ایک اور چال تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بہت پہلے ہی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکا تھا۔ سب جانتے تھے کہ امریکہ افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں بیٹھا ہوا۔ خاص طور پر جب یہ واضح ہو چکا تھا کہ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی مزید دہشت گرد پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ اسی سے اوباما کے لڑائی کے ساتھ ساتھ بات چیت جاری رکھتے ہوئے جنگ سے باہر نکلنے کی حکمتِ عملی کے نظریے نے جنم لیا۔
واشنگٹن کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لئے اوباما کی پالیسی کو سبوتاژ کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ یہ دلیل کہ مخالف سے بات کرنے سے پہلے اس کا دماغ ٹھیک کرنا ضروری ہے، اتنی منطقی لگتا ہے کہ انسان اس امکان پر غور ہی نہیں کرتا کہ اگر اس عمل میں توازن دشمن کے حق میں جھک گیا تو کیا ہوگا۔ بالکل ایسا ہی ہوا اور بعد کے برسوں میں، فوجوں میں اضافے کے باوجود، طالبان طاقتور سے طاقتور ہوتے چلے گئے۔ یوں افغانستان میں فوجیں برقرار رکھنا اور نکال لینا دونوں ہی تقریباً ناممکن ہو گئے۔ دوسری طرف طالبان دونوں صورتوں کے لئے خود کو تیار کر رہے تھے۔
9/11 کے بعد کوئی بھی ترقیاتی کام مقامی قبائلی جنگجو سرداروں کو تحفظ کی رقم ادا کیے بغیر شروع نہیں کیا جا سکتا تھا جو کہ اکثر طالبان کا وفادار ہوتا۔ پوست کی تجارت جس پر ملا عمر نے مذہبی بنیادوں پر پابندی لگائی تھی، طالبان کی مزاحمت کے لئے مالی امداد کی خاطر دوبارہ شروع ہو گئی۔ ان کی طرف سے کیا گیا سب سے دانشمندانہ اقدام مقامی گورننس کا نظام قائم کرنا تھا۔ انہوں نے تنازعات کو تیزی سے حل کرنے والا نظام قائم کیا۔ اگرچہ اس وقت یہ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن طالبان نے اس سے جو حمایت دیہی علاقوں میں حاصل کی، جہاں زیادہ تر افغان آباد ہیں، اس نے ان کو اس بجلی کی رفتار سے تمام ملک پر قبضہ قائم کرنے میں مدد دی کہ ہم سب ششدر رہ گئے۔ دیہی علاقوں کے کنٹرول نے طالبان کو کئی دوسرے فوائد بھی دیے، جن میں سے ایک قابض طاقتوں سے دیت کی رقم وصول کرنا تھا۔
شاہراہوں پر نیٹو کے قافلوں کی نقل و حرکت باغیوں کی گھاتوں سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس کے پاس ان کو حفاظت کے لئے رقم ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ایک دہائی پہلے یہ رقم 15 کروڑ ڈالر سالانہ تھی۔ اس میں افیون کی تجارت اور ترقیاتی منصوبوں پر کمیشن کو جمع کیجئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ طالبان ہر سال امریکہ کی جیب سے 50 کروڑ ڈالر نکال رہے تھے۔
پچھلی دو دہائیوں کے دوران، کوئی بھی نقشہ جس میں طالبان اور کابل حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کو دکھایا گیا ہو، یہ واضح کر رہا تھا کہ طالبان کابل کو گھیرے میں لے کر اس پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ سوویت انخلا کے بعد، دیہی علاقوں پر مجاہدین کے کنٹرول نے ان کو حکمت عملی کے حوالے سے بہت مدد دی کیونکہ PDPA اپنے مورچوں تک ہی محدود تھی۔ جس چیز نے طالبان کے کارنامے کو مزید خیرہ کن بنا دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ مجاہدین کے ساتھ تو پوری دنیا تھی جب کہ طالبان کو اکیلے ہی یہ جنگ لڑنا تھی، ماسوائے پاکستان جیسے ہمسایوں کی تھوڑی بہت مدد کے کیونکہ یہ ہمسائے بھی پوری دنیا کی طاقتور ترین فوجوں کی کابل میں موجودگی کے باعث ایک خاص حد سے زیادہ ان کی مدد نہیں کر سکتے تھے۔
پچھلے کچھ عرصے میں افغانستان میں یہ تاثر واضح ہو چکا تھا کہ دونوں ہی متحارب قوتیں بندوق کے زور پر اپنا فیصلہ نہیں منوا سکیں گی۔ تاہم یہ صورتحال بھی طالبان کے لئے زیادہ معاون تھی کیونکہ انہیں تو جیتنے کے لئے صرف زندہ ہی رہنا تھا جب کہ ہو یہ رہا تھا کہ امریکہ صرف زندہ رہ رہا تھا جب کہ طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ یہ صورتحال اس وقت تک برقرار رہی جب تک کہ ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ نے بالآخر اپنی افواج کو افغانستان سے نکال نہیں لیا۔
بے شک، ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ہے۔ میدان جنگ میں اور باہر دونوں کی محنت کی وجہ سے شاید طالبان نے نسبتاً آسانی کے ساتھ افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا ہے، لیکن ان کے سامنے چیلنجز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بارے میں اتنی بار بات ہو چکی ہے کہ دوبارہ سے گنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے کے لئے وہ اس طرح سے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق وغیرہ والی باتوں کو تو تسلیم نہیں کرنے والے جیسے ہم چاہتے ہیں۔ کچھ کی نصیحتیں واقعتاً مخلصانہ ہوں گی۔ زیادہ تر صرف یہ ثابت کرنے کے لئے بار بار ان باتوں کو اٹھا رہے ہوں گے کہ طالبان سے کوئی اچھی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ دونوں کیمپوں کو یہی مشورہ ہے کہ تھوڑا صبر کریں۔ افغان کسی اور کے لئے کام نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ ایسا کرتے ہوئے نظر آنا پسند کریں گے۔
اگرچہ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو سکتا ہے، میں پھر بھی اندازہ لگانے کی کوشش کروں گا۔ جب کبھی بھی طالبان کا اقتدار مضبوط ہوگا تو وہ تمام بیرونی قوتوں بشمول امریکہ اور بھارت کے ساتھ بات چیت کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہ ان سے کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس یقیناً دینے کو بہت کچھ ہے، اور اس کی حمایت پر وہ شکرگزار بھی ہوں گے، لیکن وہ ہمیں اپنی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور کسی صورت اپنی روایات کے خلاف نہیں جائیں گے۔
بہترین حکمتِ عملی یہی ہوگی کہ ہم نے امریکی انخلا کے بعد افغانوں کی مدد کے حوالے سے جو پالیسی بنائی تھی اس پر عمل پیرا ہوں اور خطے میں نئی پیدا ہوتی صورتحال پر اپنی نظر جمائے رکھیں جہاں ایک نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو رہا ہے۔
جیسا کہ ایک قدیم فارسی کہاوت ہے کہ نہ پائے ماندن، نہ جائے رفتن۔ ہمیں یہیں رہنا ہے۔