جنگل میں اکیلی لڑکی اور آوارہ کتے!

جنگل میں اکیلی لڑکی اور آوارہ کتے!
قلندر کی واحد کائنات اس کی تین بیٹیاں ہیں؛ سوادیکا، طاقت سرکار اور پیر بابا (پیرو Peeru )۔ تینوں اتنی بڑی ہو گئی ہیں مگر ابھی بھی کہانی سنے بغیر نہیں سوتیں۔

"ابے قلندر کوئی کلاسیکل کہانی تو سنا!" ایک روز پیرو نے کہا۔

"ہاں ہاں سنو۔ کلاسیکل ہے، استاد فیاض خاں صاحب کی بندش موافق۔"

"بہت صدیوں پہلے ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکی ایک ویران سنسان جنگل میں اکیلے ٹہل رہی تھی۔ نیچر کو انجوائے کر رہی تھی۔ اس جنگل میں وہ اکثر واک کیا کرتی تھی۔ بہت محفوظ تھا۔ چپے چپے پر سی سی ٹی وی لگے ہوئے تھے جنہیں بہت ہی چست اور برق رفتار قسم کی پولیس مانیٹر کیا کرتی تھی۔ ایک دن کیا ہوا کہ بہت سارے کتے اس لڑکی کے پیچھے لگ گئے۔"

"چکی مار لی ہو گی اسے۔۔۔" پیرو بولا (قلندر بیٹیوں کے لئے مذکر کا صیغہ ہی استعمال کرتا ہے)۔
"نہیں نہیں چکی نہیں ماری۔ دراصل ان کتوں نے صرف بھونکنے میں میٹرک کیا ہوا تھا۔ کاٹتے نہیں تھے۔ لیکن یہ لڑکی بہادرتھی۔ بالکل نہ گھبرائی۔ اپنی روٹین کی واک جاری رکھی۔ عموماً ایسے آوارہ کتے جو حسب نسب والے ہوتے ہیں، خاندانی ہوتے ہیں، اجنبیوں کے پیچھے چند قدم ہی بھونکتے ہیں۔ پر یہ خاندانی نسل کے نہ تھے۔ یہ پالتو کتے تھے۔ بھونکتے رہے، بھونکتے رہے۔ چند ہی قدم دور اس جنگل میں سٹار بکس کافی شاپ کا ایک آؤٹ لیٹ تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہ تو کتے ہیں۔ ان کا کافی شاپ میں کیا کام۔ وہ لڑکی کیفے میں داخل ہو گئی اور گرما گرم کافی ملائی مار کے آرڈر کر دی۔ لیکن کتوں نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ نہ صرف بھونکتے رہے بلکہ کیفے کے اندر بھی داخل ہو گئے۔"

"ہیں؟؟؟؟ کیا کیفے کی مینجمنٹ نے روکا نہیں؟ کتے اور کافی شاپ میں؟" سوادیکا بولا۔
"مینجمنٹ جمعہ پڑھنے گئی ہوئی تھی۔ ایک ہی ویٹر تھا جو کافر تھا۔ وہ اتنے سارے کتوں سے پنگا نہ لے سکتا تھا۔ لہذا اس نے عافیت اسی میں جانی کہ لڑکی کو کافی پیش کر دے اور کتوں کو چھیچھڑے۔ مگر کتوں نے پیٹ بھر کر حلوہ کھایا ہوا تھا اور جب کتا رج کے حلوہ کھا لے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔" قلندر نے جواب دیا۔

"تو وہ سی سی ٹی وی والی پولیس؟ وہ کیا کر رہی تھی؟" یہ طاقت تھا۔

"وہ VIP ڈیوٹی پر معمور تھی اس سمے۔ ملکہ کا جنازہ تھا نہ۔ ساری کی ساری فوج ادھر ہی لگی ہوئی تھی۔"

"اچھا!!!" تینوں بیٹیاں مل کر بولیں۔ "پھر کیا ہوا؟"

"لڑکی کسی صورت خوفزدہ ہونے کو تیار نہ تھی اور کتوں کا تان پلٹہ مزید تیز ہوتا جا رہا تھا۔ کتوں کے بھونکنے کے عمل کو مہمیز دینے کے لئے ان میں سے ایک کتا ساؤنڈ سسٹم بھی لے آیا پینا سونک کا۔ اب بھونکنے کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑ دینے کے لئے کافی تھیں۔"

"اب تو وہ بیچاری گھبرا گئی ہو گی۔۔۔۔" پیرو بولا۔

"نہیں۔ کتے بھونکتے رہے اور وہ اطمینان سے کافی کے گھونٹ بھرتی رہی۔ کافی ختم کی۔ کاؤنٹر پر پیسے دیئے۔ ویٹر کو ٹپ دی اور کتوں کو بھی اور اپنے گھر کو لوٹ گئی!!!!"

"آگے۔۔۔۔" سب بیٹیاں بولیں۔
"کہانی ختم ہو چکی ہے اب سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔"
"اور کتوں کا کیا ہوا؟"
"وہ سب کے سب اینیمل سینکچوری میں ہیں اب! اچھا یہ بتاؤ اس کہانی میں کیا سبق پوشیدہ ہے؟" قلندر بولا۔

"مکافات عمل، جیسی کرنی ویسی بھرنی یا شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر سنگ باری نہیں کرتے!" پیرو نے جواب دیا۔

"ہیں؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں۔ اس سے تو سبق ملتا ہے کہ کتوں کے بھونکنے سے قافلے نہیں رکتے۔۔۔" قلندر حیران تھا پیرو کا جواب سن کر۔

"ابے قلندر پوری کہانی نہیں آتی آپ کو۔ آپ نے اسے سیاق و سباق کے بغیر ہی پیش کر دیا۔ پوری کہانی میں سناتا ہوں!" پیرو نے جواب دیا۔

"دراصل اس لڑکی کے آباؤاجداد نے ایک معصوم بی بی کو جو حق معنوں میں دختر مشرق تھی، صدیوں تک تہمت پر تہمت لگا کر بدنام کیا تھا۔ اس کام کے لئے ایک بہت ہی بڑا السےشئین کتا جس کے گلے میں ٹلی ہوا کرتی تھی، پالا ہوا تھا جو رات دن بی بی پر بھونکا کرتا تھا۔ یہ جو کتے تھے اسی کی نسل میں سے تھے۔ چونکہ قدرت کو مکافات عمل منظور تھا، سو اسی لڑکی پر بھونکنے لگے جس کے بزرگ کبھی ان کے باپ کے آقا ہوا کرتے تھے۔ اب سمجھ میں آیا؟ بہت بڑے قلندر بنے پھرتے ہو۔ آتا جاتا کچھ ہے نہیں!"

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔