سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت صاصل کرنے سے قبل رواں ہفتے سوموار کی صبح قوم کو یہ بتا دیا کہ اس ملک میں یا تو نیب چلے گی یا معیشت۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پھر اسی روز شام کو بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک طویل پریس کانفرنس کر ڈالی اور پہلے دس منٹ تک ملکی معیشت، مہنگائی اور نظام پر بات کی اور باقی سارا وقت نیب پر گفتگو فرما کر والد صاحب کے صبح کے بیان کی وضاحت کی۔
پس منظر یا پیش منظر کو مد نظر رکھے بغیر بلاول کی معصومیت، جذباتیت، چہرے کی سرخی، پسینہ اور اس کے ساتھ وہ تسلسل، روانی اور یقین جس کے ساتھ بلاول نے یہ ساری پریس کانفرنس کی، وہ واقعتاً تعریف کے مستحق ہیں۔ انہوں نے معیشت اور مہنگائی کو والد صاحب اور پھوپھو کی ممکنہ گرفتاری اور سزا کو متنازعہ بنانے کے لئے استعمال کیا۔ بلاول بھٹو نے ڈاکٹر شرجیل میمن، ڈاکٹر ڈنشاہ اور سراج درانی کے نام لے کر انہیں بے گناہ قرار دے ڈالا اور وہ کام جو عدالتوں نے کرنا تھا، اس پر اپنی رائے ہی نہیں دی بلکہ فیصلہ بھی سنا دیا۔ انہوں نے لاہور کی عدلیہ کے فیصلوں پر بڑے اور چھوٹے صوبے کے پرانے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنی والدہ اور اپنے نانا کی یاد تازہ کرائی اور اس روش کو تیسری پیڑی میں دہرا کر تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ جیے بھٹو اور جے ہو زرداری۔
یہ بھی پڑھیں: مشیر اطلاعات بنتے ہی فردوس عاشق اعوان کیخلاف نیب انکوائری بند
بلاول بھٹو نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کا جیل جانا برداشت نہیں کیا جائے گا، سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو زرداری صاحب کے جیل جانے کا خطرہ اب تقریبا حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے۔
بلاول نے اٹھارویں ترمیم، صدارتی نظام اور فوجی عدالتوں کو نہ ماننے کا نعرہ لگاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ پاک فوج کے ترجمان نے کچھ گھنٹے قبل ہی پریس بریفنگ میں پیپلز پارٹی اور رائو انوار کے ذکر کو پی ٹی ایم کے سیاق و سباق میں استعمال کیا تھا جس کا کھرا زرداری صاحب کی طرف نکالتا ہے۔
بلاول نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ بات اب رائو انوار سے بہت آگے نکل چکی ہے یعنی بات گرفتاری تک پہنچ چکی ہے۔ اب تخت یا تختہ۔ یا نظام لپیٹ دو یا پھر اسمبلی کو ایک مذاق بنا دو اور اٹھارہویں ترمیم، صدارتی نظام اور فوجی عدالتوں وغیرہ کا ڈھول پیٹنا شروع کر دو۔ حکومت کی معاشی اور انتظامی ناکامی کو نیب سے جوڑ کر ذاتی مفاد کو ایک قومی ضرورت بنا دو اور اس حد تک اس کو تقویت دو اور چرچا کرو کہ عام آدمی بھی اسے سچ سمجھنے لگے۔
اگر عمر اور تجربے کی بنیاد پر بلاول کی باتوں کو سنجیدہ نہ بھی لیا جائے تو کیا سابق صدر زرداری نے سوموار کے روز معیشت اور نیب کے تعلق پر کوئی بیان نہیں دیا یا یہ ان کی محض ذاتی رائے تھی؟ ہو سکتا ہے، زرداری صاحب نے تنبیہہ کی ہو یا پھر یہ دھمکی بھی ہو سکتی ہے؟
سابق صدر پاکستان سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی بات کو صرف ایک خبر قرار دینا ناانصافی ہوگی۔ وہ چونکہ معیشت کے ماہر نہیں ہیں جسے بنیاد بنا کر اسے ایک تجزیہ قرار دیا جا سکے۔ تاہم، اسے دھمکی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ زرداری صاحب کبھی کبھی جذبات میں آکر دھمکی دے ڈالتے ہیں پھر چاہے ملک چھوڑ کر دو سال دبئی میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آصف علی زرداری نے جو کہا ہے، وہ ہمیشہ کر کے دکھایا ہے۔ سیاسی میدان میں ان کے تین بڑے معرکوں میں بے نظیر بھٹو سے شادی، ملک کا صدر بن جانا اور پھر پچھلے دس برسوں میں بادشاہ گر کا کردار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی نیب میں پیشی، کارکنوں کا اظہار یکجہتی
انہوں نے اپنے حالیہ بیان میں ملکی معیشت کی سمت کا تعین بھی کر دیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ ملکی معیشت صرف انہی بنیادوں اور اصولوں پر چلے گی جس پر پہلے چل رہی تھی چاہے منی لانڈرنگ ہو یا پھر گمنام اکاؤنٹس کا معاملہ، یہ سب چلتا رہے گا۔
پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ ’’جیو‘‘ نے شام کے پروگرام میں چھ تجزیہ کاروں کو ایک ساتھ بٹھایا اور سب نے ’ہاں‘ میں رائے دے کر اس بیان کو حقائق پر مبنی قرار دیا ہے۔
مجھے اس وقت جنرل ضیاءالحق کا ریفرینڈم یاد آ گیا، اس وقت میں اٹھارہ برس کی عمر میں اکیڈمی میں زیر تربیت تھا۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی کی جانب سے نیب کو دائرہ کار میں لانے کے لیے جو تجاویز اسمبلی میں دی گئی ہیں، وہ خود اسمبلی اور جمہوریت کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نیب ایک ادارے کے طور پر سیاست دانوں کے ہاتھوں مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ باقی کثر عدلیہ نے نکال دی ہے۔ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی ضمانت ہو یا پھر لاہور ہائی کورٹ سے حمزہ شہباز کی مسلسل ضمانتیں یا اب اسلام آباد ہائیکورٹ سے زرداری صاحب کی ضمانت کا آغاز ہو… یہ سوچ لیا گیا ہے کہ نیب کو کامیاب نہیں ہونے دینا۔ حکومت خود بھی مصلحتوں کا شکار ہے۔ کرپشن کے خاتمے کا وہ نعرہ جو پی ٹی ائی کی جیت کا نشان سمجھا جاتا ہے، اب وہ نعرہ کھل کر اس ادارے کے پیچھے کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس، نیب اور ایف آئی اے کی غیرمعمولی ’’عجلت‘‘
عدلیہ کی وجہ سے عسکری قوتیں بھی بیک فٹ پر کھیل رہی ہیں۔ یہ ذکر رائو انوار سے آگے نکل آیا ہے۔ ہم کتنی آ گئے، اس کا اندازہ قوم کو تو شاید کبھی نہ ہو مگر زرداری صاحب، بلاول زرداری، عمران خان اور اداروں کو ضرور ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے پاس دو راستے ہیں۔ وہ یا تو زرداری صاحب کی بات مان جائیں اور معیشت اور نیب کو ساتھ ساتھ اور ایک خاص وقت کے اندر چلا کر زرداری صاحب اور قوم کو دکھا دیں کیوں کہ فوج حکومت گرانے یا بدلنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے میں اس کی کوئی دلچسپی ہے اور یہ عمران خان سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا۔