وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں دورہ کوئٹہ میں 22 کلو میٹر کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس(N-25) کو دورویہ کرنے اور 11 کلومیٹر ڈیرہ مراد جمالی پاس(N-65) کی تعمیرکے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔
بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہر حکومت اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیئے یہاں کے ان سیاستدانوں کے ساتھ ساز باز کرتی ہے جو برائے فروخت ہوتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ جن سیاستدانوں کا مقصد اس صوبہ اور عوام کی ترقی ہوتا ہے ان کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا نے بھی بلوچستان کے اس اہم مسئلہ کے بارے میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور یہ تمام صورتحال آج کل کی نہیں بلکہ یہ عرصہ دراز سے جاری ہے ۔ اس کو قومی جرم کہیں یا کچھ بھی کہیں لیکن کیا بلوچستان صرف اس وقت خبروں کی زینت بنتا ہے جب یہاں کوئی واقعہ،کوئی بڑا حادثہ،زلزلہ یا سیلاب آجائے ۔
بلوچستان کے عوام تو ہر وقت مصائب کا شکار رہتے ہیں ۔ لیکن افسوس کبھی کسی نے اس اہم ترین صوبے کے عوام کی مشکلات کو اس قابل نہیں سمجھا جس پر بات کی جا سکے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان یا تو ذاتی مفادات کے حصار میں بند ہیں یا وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ وہ تو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ آئین کے تحت اپنے صوبے کے حقوق کے لیئے پارلیمنٹ کے اندر ہی سہی کوئی آواز بلند کر سکیں ۔
ذاتی مفادات کے حصول کے بعد جب وہ واپس بلوچستان جاتے ہیں تو اپنے ساتھ وفاقی حکومت کے وعدوں کی ایک بوری لے جاتے ہیں ۔ جو وفاقی حکومت کے ان وعدوں سے بھری ہوتی ہے جن میں اکثریت کی کبھی تکمیل نہیں ہوئی ۔ بلوچستان کے عوام کو طفل تسلیاں دے کر ہر حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے ۔ اگر یہاں کے سیاستدان وفاق کے شانہ بشانہ صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے کمر کس لیں اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی حکومت بلوچستان کے مسائل کا مذاق بنائے ۔ لیکن اس کے لیئے قربانی دینی ہوگی اور قربانی اپنے ذاتی مفادات کی دینی ہوگی ۔ آئینی طریقہ سے اپنے حقوق کے لیئے کوشش کرنا ہر شہری کا حق ہے ۔ یہاں پھر بات عوام پر آتی ہے ۔ عوام خود اپنی طاقت سے بے خبر ہیں۔ حکمران جماعتیں اس بے خبری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہمارے عوام سے بے خبر لاتعلق دانشور اور ماہرین جو شاید کبھی بلوچستان کی سڑکوں ‘میدانوں‘ دشت اور پہاڑوں پر دو قدم پیدل نہیں چلے یہاں کے مسائل کو اشرافیہ کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کوئٹہ خضدار‘ مچھ‘ سبی‘ جعفر آباد‘ لسبیلہ ‘ زیارت کچلاک‘ ہرنائی ' چمن' تربت' 'پنجگور' گوادر پسنی میں کیا حال ہے ۔ یہاں کے عوام کو سی پیک سے بہت توقعات ہیں۔ مگر سی پیک سمیت تمام منصوبے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ