سی پیک جیسے منصوبے بے کار، بلوچ آج بھی پانی کو ترس رہا ہے

سی پیک کے نام پر لاہور، کراچی، پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں ترقیاتی پروجیکٹ شروع ہوئے۔ بلوچستان کا حصہ لاہور اور کراچی میں بانٹ دیا گیا۔ گوادر کے عوام اب بھی پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کرتے ہیں۔

سی پیک جیسے منصوبے بے کار، بلوچ آج بھی پانی کو ترس رہا ہے

1997 میں میاں نوازشریف دوتہائی اکثریت سے طاقتور ترین وزیر اعظم کی حیثیت سے جب گوادر تشریف لائے تو گوادر کے پرانے جی ٹی فش ہاربر پر ان کے لیے جلسہ سجایا گیا جس میں انہوں نے بلوچستان کے مفلوک الحال، پسماندہ، غریب، بھوکے، پرانے کپڑے پہنے ہوئے لاچار ماہی گیروں، پیاسے اور معاشی بدحالی کے شکار شہریوں، مخلتف دیہاتوں سے آئے ہوئے غریب کسانوں، معصوم طلبہ اور گنتی کے چند رئیسوں سے رعونت، غرور اور بڑے ہی تکّبر سے خطاب کیا۔ جوش خطابت میں جب میاں صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں بڑے رُعب اور دبدبے سے لوگوں سے پوچھا کہ بتاؤ بھئی نواز شریف بلوچستان کے عوام کے لیے کیا کرے؟ تو تقریب میں موجود کچھ سیاسی کارکنان نے بڑے جذباتی اور والہانہ انداز میں میاں صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میاں صاحب سے گزارش کی کہ وہ بلوچستان کو فی الحال چھوڑ دیں، صرف گوادر جس کو آپ بین الاقومی شہر بنانے آئے ہیں، اس کو بجلی اور یہاں کے غریب نادار ماہی گیروں اور عوام کو بنیادی ضرورت زندگی یعنی پانی کا تحفہ دے کر جائیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب نے نفی میں ہاتھ اور سر ہلایا اور بڑے تکّبرانہ انداز میں فرمایا کہ بھائی دو نہیں، ایک چیز مانگو۔ تو لوگوں نے کہا کہ میاں صاحب ہمیں صرف زندہ رہنے کے لیے پانی دے دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اور ہم قیامت تک آپ کے احسان مند رہیں گے۔ میاں صاحب نے اپنے ساتھ کھڑے کچھ سرکاری افسران اور حکومت بلوچستان کے لوگوں کو بلایا اور انہیں وہیں سٹیج پر ہدایات جاری کر دیں کہ گوادر کے لوگوں کو پانی دے دیں۔ اسی دوران انہوں نے لوگوں سے دوبارہ مخاطب ہو کر پوچھا، بھئی گوادر والو اب تو خوش ہو نا؟ میں نے آپ کے لیے پانی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ آپ لوگوں کو جلد ہی اپنے گھروں میں نلکوں کے ذریعے پانی ملا کرے گا۔ کوئی پیاسا نہیں ہو گا۔ اب تو تالی بجا دو گوادر والو۔ لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں مگر ایک دوسرے سے سرگوشی میں یہ بھی کہتے رہے کہ میاں صاحب جھوٹ بول رہے ہیں، کوئی پانی وانی نہیں دے گا، ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ وہ دن اور آج 2024 کا دن، گوادر آج بھی پیاسا ہے۔

گوادر آج بھی اندھیروں میں ہے۔ میاں صاحب کو کچھ عرصے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ مشرف صاحب نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کو پسند کرنے والے ہم سیاسی کارکنوں نے بھرپور مخالفت کی اور بحالی جمہوریت کی ہر اس تحریک کا حصہ بنے جو آمریت کے خلاف ملک میں سرگرم تھی۔ مگر ریاست نے اپنی بہترین آمریت کے دوران جو استحصالی پروجیکٹ بدترین جمہوریت کے دور میں محض کاغذوں پر لکھے تھے، وہ پروجیکٹ بڑی تیزی کے ساتھ شروع کر دیے۔ اہم ترین پروجیکٹ گوادر ڈیپ سی پورٹ، گوادر کراچی کوسٹل ہائی وے سمیت ریلوے ٹریک اور بے شمار سرکاری و غیر سرکاری پروجیکٹس کا آغاز ہوا۔

پانی اور بجلی کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں نے سیاسی سرگرمیاں منسوخ کر کے گوادر کو دبئی اور سنگاپور بنانے کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے پراپرٹی ڈیلنگ کا کام شروع کر دیا۔ گلی کوچوں میں سٹیٹ ایجنسیاں کھل گئیں۔ گوادر میں مخلتف جگہوں کے نام ایکڑ چوک، پلاٹ چوک، کھتونی بازار سے منسوب ہو گئے۔ ہوٹلوں کے ویٹر، دکاندار، ایئرپورٹ پر سکیورٹی افسران سمیت ہر کوئی پراپرٹی ڈیلر بن گیا۔ لوگ لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے لگے۔ گاڑیوں کی ڈگیوں میں پیسے بھر بھر کر لوگ گوادر لانے لگے۔ ایک دو سالوں میں گوادر کے مقامی اور غیر مقامی لوگ تقریباً کروڑ پتی بن گئے۔ دبئی، تھائی لینڈ اور سنگاپور آنا جانا معمول بن گیا۔ ہر طرف ایکڑ، اراضی، پلاٹ کے قصے لوگ ایک دوسرے کو سنانے لگے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بہترین آمریت نے بدحال لوگوں کو مالدار بنایا مگر آہستہ آہستہ مالدار لوگوں کے پیروں کے نیچے سے ان کی جدّی پشتی زمین کھینچ لی گئی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنے والے لاچار لوگ جب پیسوں کی ریل پیل میں مگن تھے تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ مذموم عزائم اور سازش کے ذریعے ان کی جیبوں کو گرم کر کے ان سے کھربوں کا خزانہ چھینا جا رہا ہے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی اونے پونے داموں غیر مقامی لوگوں نے خرید لی۔ گوادر ماسٹر پلان منصوبے اور آس پاس کی تمام زرعی اور کمرشل زمینیں گوادر کے مقامی لوگ پیسوں کے لالچ اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے غیر مقامی لوگوں کو بیچتے چلے گئے۔

اس وقت جب عام لوگ کروڑوں میں کھیل رہے تھے، بی ایس او اور قوم پرست پارٹیوں کے جیالے فکری کارکنوں نے ناصرف اس کروڑ پتی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا بلکہ گھر گھر، گاؤں گاؤں، شہر شہر تبلیغ کرتے رہے کہ لوگو اپنی بھوک اور بے بسی برداشت کرو، اپنی غریبی، لاچاری اور ناداری برداشت کرو کہ وہ اپنی ہے مگر یہ دولت اپنی نہیں ہے، یہ دوسروں کی طرف سے دیا گیا لالچ اور دوسرون کی دین ہے، یہ آپ لوگوں کو اپنی زمین سے بے دخل کر دے گی، یہ تمہیں تمہاری وطن سے دور کر دے گی۔ مگر لوگ ان فکری اور نظریاتی سیاسی کارکنوں کا مذاق اُڑاتے رہے، انہیں پاگل کہتے رہے۔ وہ دولت کی ہوس میں ایسے مگن ہو گئے کہ انہیں پتہ تک نہیں چلا کہ کب ان کے پیروں کے نیچے سے ان کی اپنی زمین کھینچ لی گئی ہے۔

گوادر ڈیپ سی پورٹ کو تعمیر ہوئے 20 سال ہو گئے۔ مشرف دنیا سے کوچ کر گئے۔ میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ چین، زرداری اور میاں صاحب نے مل کر ایک نئے استحصالی پروجیکٹ کی منظوری دے دی اور اس کو سی پیک کا نام دیا یعنی چین پاکستان اکنامک کوریڈور۔ اس پروجیکٹ میں سڑکیں، بندرگاہ، ریلوے ٹریک سمیت بے شمار صنعتی زونز شامل ہیں۔ بلوچ سرزمین سے شروع ہو کر یہ وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا سب سے قریب ترین اور آسان راستہ ہے مگر بدقسمتی سے یہ پروجیکٹ بھی بلوچ وسائل کی لوٹ مار کا سب سے بڑا اور منفرد ذریعہ ثابت ہوا۔ بلوچ جیسے اہم پارٹنر کو ناصرف نظرانداز کیا گیا بلکہ بلوچ کی قومی بقا، ان کے تشخص اور قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر ملک اور بیرون ملک لے جایا گیا۔

سی پیک کے نام پر لاہور، کراچی، پشاور اور ملک کے مختلف حصوں میں ترقیاتی پروجیکٹ شروع ہوئے۔ لوگوں کو برسر روزگار کیا گیا۔ بلوچستان کا حصہ لاہور اور کراچی میں شفٹ کیا گیا۔ چند سالوں میں لاہور کو سی پیک کے پیسوں سے دنیا کے جدید شہروں جیسا بنایا گیا۔ وہاں جدید تعلیمی ادارے قائم کئے گئے مگر گوادر کے عوام اب بھی پانی اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔ گوادر میں اب بھی روزانہ کی بنیاد پر پانی اور بجلی کے لیے احتجاج ہوتا ہے۔ اس لیے ان تمام حکومتی اقدامات کو سامنے رکھ کر ہم بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنان یہ کہنے پر حق بجانب ہیں کہ یہ استحصالی پروجیکٹ ہیں جو بلوچ وسائل کو لوٹنے کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں اور بلوچ قومی سالمیت کے خلاف ہیں۔

مگر یہ یاد رکھا جائے کہ بلوچ اپنی زمین، اپنی تہذیب، اپنی زبان اور اپنے وسائل کی حفاظت چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سی پیک ایک بین الاقوامی استحصالی پروجیکٹ ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم سیاسی طور پر منشتر اور بکھرے ہوئے صحیح مگر اپنے وطن کے دفاع کے لیے غافل نہیں ہیں۔ 1997 سے اب تک چند مصنوعی تعمیرات کے علاوہ گوادر آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ البتہ ایک فرق ضرور ہے کہ آج گوادر کے اردگرد خاردار تاروں سے ایک باڑ لگائی جا رہی ہے جو گوادر کے نادار، غریب اور لاچار لوگوں کو گوادر سے الگ کرے گی۔ سکیورٹی کے نام پر شہر کو خاردار تاروں میں بند کرنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ لوگوں کو اپنے سمندر اور اپنی زمینوں سے الگ کر کے ہم کس طرح امن قائم کر سکتے ہیں؟ جب تک ریاست بلوچستان کے عوام کو ان تمام معاملات میں اعتماد میں نہیں لے گی، اسی طرح زبردستی نام نہاد الیکشن کے نام پر فراڈ کر کے اپنے من پسند لوگوں کو عوام پر مسلط کرنا بند نہیں ہو گا۔ جب تک عوام کے حقیقی نمائندوں کو عوامی نمائندگی کا حق نہیں ملے گا اس وقت تک یہ تمام پروجیکٹ مصنوعی اور فرضی ثابت ہوں گے۔

بلوچ اور بلوچستان کے وجود کو تسلیم کر کے ریاست ایک بہتر اور مثبت راستہ نکال سکتی ہے۔ سیاسی لوگوں کو پارلیمان سے بے دخل کر کے اپنی مرضی کی قانون سازی سے کسی بھی طور ایک بہتر بلوچستان نہیں بنایا جا سکتا۔ بلوچ کو اپنے وسائل اور اپنے وطن پر حق حاکمیت دے کر ہی ریاست ایک بہترین اور پُرامن راستہ نکال سکتی ہے مگر بدقسمتی سے ارباب اختیار اور ان کے مشیروں کو بلوچ معاملے کو سمجھنے کی قطعی طور پر ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔