ملک کے سینئرصحافی عامر میر جنہیں ایف آئی اے نے دفتر جاتے ہوئے سرراہ گرفتار کر لیا تھا۔نے ایف آئی اے کے خلاف اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔ عامر میر نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی یہ درخواست یہ کہ کر واپس لی ہےکہ وہ اپنا کیس آگے بڑھانے کے حوالے سے خود کو حوصلہ شکن کیفیت میں پاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں مزید لکھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نادیدہ عناصر جو گزشتہ دو سالوں سےایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کو میرے خلاف کیسز بنانے، مجھے ہراساں اور اغوا کرنے کےلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ اس کیس کی سماعت کے دوران بھی فعال ہوں گے اور یہ نادیدہ عناصر ان سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ جو کہ مجھے انصاف دینےاور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر معمور ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہی نادیدہ عناصر اسلام آباد میں تین صحافیوں پر ہوئے قاتلانہ، تشدد اور اغوا کے حملوں میں بھی ملوث تھے۔ ابصار عالم پر قاتلانہ حملوں میں ملوث افراد کے چہرے واضح تھے۔ لیکن نادرا انہیں ہمیشہ کی طرح شناخت نہ کرسکا۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے ساتھ ایف آئی اے کی جامب سے جو بھی کیا جا رہا ہے وہ انہی نادیدہ عناصر کی وجہ سے ہو رہا ہے جنہیں آج تک احتساب کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔ میں نے ایف آئی کی جانب سے گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ مجھے ان نادیدہ عناصر کی جانب سے ظاہر و خفیہ دھمکیاں ملتی رہی تاہم جو کچھ اس کیس کے حوالے سے 20 اگست کے بعد سے اب تک ہو چکا ہے اس کے بعد کی صورتحال حوصلہ شکن ہے۔ میں یہ درخواست واپس لیتا ہوں۔
ملک کے سینئرصحافی عامر میر جنہیں ایف آئی اے نے دفتر جاتے ہوئے سر سرراہ گرفتار کر لیا تھا۔نے ایف آئ اے کے خلاف اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔ عامر میر نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی یہ درخواست یہ کہ کر واپس لی ہےکہ وہ اپنا کیسآگے بڑھانے کے حوالے سے خود کو حوصلہ شکن کیفیت میں پاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں مزید لکھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نادیدہ ہاتھ جو گزشتہ دو سالوں سےایف آئ سائیبر کرائم ونگ کو میرے خلاف کیسز بنانے مجھے ہراساں اور اغوا کرنے کےلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ اس کیس کی سماعت کے دوران بھی فعال ہوں گے اور یہ نادیدہ ہاتھ ان سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ جو کہ مجھے انصاف دینےاور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر معمور ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہی نادیدہ عناصر اسلام آباد میں تین صحافیوں پر ہوئے قاتلانہ، تشدد اور اغوا کے حملوں میں بھی ملوث تھے۔ ابصار عالم پر قاتلانہ حملوں میں ملوث افراد کے چہرے واضح تھے۔ لیکن نادرا انہیں ہمیشہ کی طرح شناخت نہ کرسکا۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے ساتھ ایف آئی اے کی جامب سے جو بھی کیا جا رہا ہے وہ انہی نادیدہ عناصر کی وجہ سے ہو رہا ہے جنہیں آج تک احتساب کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔ میں نے ایف آئی کی جانب سے گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ مجھے ان نادیدہ عناصر کی جانب سے ظاہر و خفیہ دھمکیاں ملتی رہی تاہم جو کچھ اس کیس کے حوالے سے 20 اگست کے بعد سے اب تک ہو چکا ہے اس کے بعد کی صورتحال حوصلہ شکن ہے۔ میں یہ درخواست واپس لیتا ہوں۔
خبر کا پس منظر
6 اگست کو عامر میر اور عمران شفقت، دونوں صحافیوں کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے صبح حراست میں لیا تھا جس کے بعد صحافتی تنظیموں اور سوشل میڈیا پر ان کارروائیوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
عامر میر آج کل فوجی افسران پر تنقید کی وجہ سے پابندی کا سامنا کرنے والے پاکستان کے سینیئر صحافی حامد میر کے بھائی اور ایک ویب ٹی وی کے سی ای او ہیں جبکہ عمران شفقت بھی ماضی میں متعدد ٹی وی چینلز سے منسلک رہنے کے بعد اب یو ٹیوب پر اپنا چینل چلاتے ہیں۔
سائبر کرائم ونگ لاہور کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق دونوں صحافیوں کے خلاف اعلیٰ عدالتی ججوں، پاکستان کی فوج اور خواتین سے متعلقہ تضحیک آمیز رویہ پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انہیں بعد ازاں شخصی ضمانت پر رہا کیا گیا۔