چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سوشل میڈیا مہم کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی تشکیل

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ وفاقی تحققیاتی ادارہ (ایف آئی اے) سائبر کرائم کے ڈائریکٹر جے آئی ٹی کے سربراہ ہوں گے اور ٹیم میں انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور اسلام آباد پولیس کا ایک،ایک افسر شامل ہوگا۔تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ 15 روز میں وزارت داخلہ میں جمع کرادی جائے گی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سوشل میڈیا مہم کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی تشکیل

وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے خلاف سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہم اور ٹرولنگ کی تحقیقات کے لیے خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دے دی۔

اس ضمن میں وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ۔

وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ وفاقی تحققیاتی ادارہ ( ایف آئی اے) سائبر کرائم کے ڈائریکٹر جے آئی ٹی کے سربراہ ہوں گے اور ٹیم میں انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) اور اسلام آباد پولیس کا ایک،ایک افسر شامل ہوگا۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کے لیے ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز تعاون فراہم کرے گا اور تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ 15 روز میں وزارت داخلہ میں جمع کرادی جائے گی۔

حکام کی جانب سے سوشل میڈیا مہم کا حصہ بننے والے کسی مخصوص اکاؤنٹ یا پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا تاہم رپورٹ کے مطابق وزارت قانون نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی مبینہ مہم پر تنقید کی تھی اور بار ایسوسی ایشن کے صدر نوید ملک نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری بدنیتی پر مبنی مہم کی بار ایسوسی ایشن شدید مذمت کرتی ہے۔ 

تاہم بار کے اس بیان میں کسی کا نام لے کر اسے اس مہم کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بیان میں کہا گیا تھا کہ جسٹس عامر فاروق اپنی ایمان داری اور اہلیت کے اصولوں کے لیے غیر متزلزل عزم کے لیے مشہور ہیں۔ ہمیشہ اپنے غیر جانب دارانہ اور میرٹ پر مبنی فیصلوں کے ذریعے ان خوبیوں کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔

وزارت قانون نے بھی جسٹس عامر فاروق کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی شدید مذمت کی تھی۔ وزارت قانون نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں ریاستی اداروں پر حملے سے گریز کریں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس پر ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر دائر اپیل کی سماعت کر رہے تھے۔
 سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے وکلا کے ذریعے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ان کے تمام مقدمات کو صوبائی ہائی کورٹس میں منتقل کیا جائے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں عام انتخابات سے باہر رکھنے اور جیل میں بھیجنے کے لیے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق پر پی ٹی آئی کے الزامات عمران خان کو ٹرائل کی جانب سے 5 اگست کو سنائی گئی سزا سے قبل اس وقت عائد کیے گئے تھے جب ان کے سامنے توشہ خانہ کیس کے ٹرائل کے حوالے سے درخواست سماعت کے لیے مقرر تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ان کے خلاف پٹیشن بھی دائر کردی تھی اور درخواست کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ان کے تمام مقدمات دوسرے صوبائی ہائی کورٹس میں بھیج دیے جائیں۔