شانتی نگر سے شروع ہونے والی نفرت کی آگ جڑانوالا کے بعد بجھ پائے گی؟

'جب آپ سومنات کے مندر کو زمیں بوس کرنے والے کو ہیرو کے طور پر پڑھائیں گے، جب بامیان میں دنیا بھر کی جانب سے درخواستوں کو رد کر کے بدھا کے مجسموں کو ہر صورت تباہ کرنے والے طالبان کو سومنات کا مندر توڑنے والے کی مانند ہیرو قرار دیں گے تو گرجا گھر کو آگ لگانے والے کو مجرم کیونکر کہہ سکتے ہیں؟'

شانتی نگر سے شروع ہونے والی نفرت کی آگ جڑانوالا کے بعد بجھ پائے گی؟

ابھی کچھ روز قبل ذرائع ابلاغ پر بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کا چرچا جاری تھا۔ پھر خبر آئی کہ بھارت چاند پر اپنا خلائی جہاز اتارنے جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں مہم جوؤں نے سوچا کہ چاند پر اترنے کا مقابلہ تو ہم کبھی نہیں کر پائیں گے تاہم انتہا پسندی اور بربریت کے میدان میں بھارت کو آسانی سے شکست دینے کا چاند تو چڑھایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ 16 اگست 2023 کو سوشل میڈیا کے توسط سے پاکستان میں مسلمان حملہ آوروں کی جانب سے گرجا گھروں کی اہانت اور مسیحیوں کے گھروں کی تباہی کے بھیانک ترین مناظر دنیا بھر میں یوں نظر آئے کہ لوگ بھارت کے بجائے ہمارا نام لینے لگے۔

یہ دلخراش مناظر پاکستان کے شہر فیصل آباد سے 35 کلومیٹر دُور جنوب مشرق میں واقعہ شہر جڑانوالہ کے تھے۔ سترہویں صدی سے آباد جڑانوالہ کا علاقہ کئی دہائیوں تک سکھوں، ہندوؤں، مسلمانوں اور مسیحیوں کی پُر امن رہائش گاہ رہا ہے۔ یہ خطہ پنجاب کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ کی جنم بھومی بھی ہے جس نے کہا تھا؛

'اگر یہ خطہ مذہب کے نام پر تقسیم ہوا تو نفرت کی اس آگ کو بجھاتے بجھاتے آنے والی نسلوں کی کمر ٹوٹ جائے گی'۔

 17اگست 2023 کی دوپہر جڑانوالہ کی گلیوں میں ایک 62 سالہ ریٹائرڈ مسیحی استاد لعل مسیح اپنے بیٹے اور دو بیٹیوں کو ساتھ لئے گھوم رہا تھا۔ لاہور سے آتے ہوئے راستے میں بچوں نے پوچھا کہ پاپا ہمیں کیوں ساتھ لے جا رہے ہو تو اُس نے جواب دیا؛ 'میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی آنکھوں سے مسیحی برادری کی حالت دیکھ سکو اور پاکستان میں رہتے ہوئے کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہو'۔ لاہور سے جڑانوالہ کے لئے موٹروے کا سفر آرام دہ ہے مگر اُسے لگا کہ وہ یہ سفر برہنہ پا کانٹوں پر چل کر کاٹ رہا ہے۔ اُسے راستہ بھر 6 فروری 1997 کو شانتی نگر میں ہونے والے سانحہ کے مناظر یاد آنے لگے۔ 26 سال قبل وہ سٹونزآباد سے دیگر نوجوانوں کے ہمراہ اپنے گاؤں کی جانب سے شانتی نگر میں لوگوں کے لئے ناشتہ لے کر گیا تھا۔ گزرتے سالوں میں سانگلہ ہل (2005)، گوجرہ (2009)، جوزف کالونی لاہور (2013)، قصور (2014)، یوحنا آباد لاہور (2015)، مسیحیوں کی بربادی کے زخم اُس کی روح پر آج بھی تازہ تھے۔

جڑانوالہ میں گرجا گھروں کے اندر اور باہر اہانت شدہ اور مسخ کردہ مقدس برتن، بائبل مقدس اور مقدس کُتب کے جلے ہوئے نسخے، دھوئیں سے اٹی سیاہ چھتیں اور دیواریں، پگھلے ہوئے گارڈر اور پنکھے، گلیوں میں جلے ہوئے گھریلو سامان، موٹر سائیکل، سائیکل اور دیگر بکھری ہوئی تباہ حال اشیا دیکھ کر اُس کو پرانے سانحات کے مناظر کی بازیافت ہوتی رہی۔ کرسچن کالونی کی گلی میں گھروں کا جلا ہوا تباہ شدہ سامان پڑا تھا۔ کیتھولک چرچ کے سامنے تباہ شدہ مقدس چیزیں اور بکھرے ہوئے برتن لوگوں کے مذہبی جذبات کا مذاق اڑا رہے تھے۔ لعل مسیح نے ایک گھر کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے شخص کو گلے لگا کر اظہار ہمدردی کیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہنے لگا؛ 'ہمارے گھر جلا دیے ہیں، ہمیں جلا دیتے مگر ہمارے گرجا گھر پر چڑھائی نہ کرتے تو ہماری برداشت میں ہوتا'۔

عیسیٰ نگری میں گھومتے ہوئے اُسے احساس ہوا کہ جڑانوالہ اور شانتی نگر کے واقعات میں بعض معاملات میں حیرت انگیز مشابہت تھی۔

شانتی نگر کے لوگ بھوکے ننگے نہیں تھے۔ اُن کی زمین علاقہ میں زرخیز ترین ہے۔ لوگوں کے گھروں میں خوشحالی تھی۔ چنانچہ حملہ کا ایک پہلو اُن کی معاشی کمر توڑنا بھی تھا۔ شانتی نگر کے باغات کاٹ دیے گئے۔ اُن کے ٹریکٹر، گاڑیاں اور دیگر اشیا تباہ کر کے اُن کی معاشی خوشحالی پر سوچ سمجھ کر گہری ضرب لگائی گئی تھی۔ دوسری طرف جڑانوالہ کے مسیحی محنت کش لوگ ہیں۔ اُن کے گھروں میں ٹائلز سے مزین صاف ستھرے واش رومز اور کچن تھے۔  LCDs، فریج، AC، واشنگ مشینیں، دیگر بجلی کے سامانِ آسائش سے اُن کی خوشحالی عیاں تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حملہ آوروں کے ہاں اُن کی بھی معاشی کمر توڑنا اِس مشق کا ایک مقصد تھا۔

شانتی نگر میں ایک مسیحی بابا راجی پر الزام تھا کہ اُس نے مبینہ طور پر ایک کاغذ پر توہین آمیز عبارت لکھی تھی جس کے نیچے بابا راجی نے اپنا نام بھی لکھا تھا۔ مذکورہ کاغذ گاؤں کے قریب بہنے والی نہر کنارے مسجد میں پایا گیا تھا۔ جڑانوالہ میں راجا نامی مسیحی لڑکے پر بھی ایسا ہی الزام تھا۔ اِس لڑکے نے مبینہ طور پر توہین آمیز عبارت لکھ کر نیچے اپنا نام اور فون نمبر درج کرنے کے علاوہ اپنی تصویر بھی چسپاں کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر شانتی نگر کا بابا راجی اور جڑانوالہ کا راجا دونوں ہی ناخواندہ تھے۔

ایک خاتون نے بتایا کہ وقوعہ کے روز وہ ناشتہ کر رہی تھی کہ ایک پڑوسن نے اُسے خبردار کیا اور کہا کہ بھاگو اپنی جان سنبھالو۔ 'میں نے بچوں کو لیا اور گھر کو تالا لگا کر فوراً گھر سے بھاگ گئی۔ ابھی آئی ہوں تو گھر راکھ ہو چکا ہے'۔

کرسچن کالونی کے ایک نوجوان سیت مسیح نے بتایا کہ انہوں نے مسلمان برادری کے رہنماؤں سے کہا کہ  FIRکٹ گئی ہے اور پولیس کو اپنا کام کرنے کے لئے موقع دیں۔ اِس دوران جتھوں نے حملہ شروع کر دیا تھا۔ مساجد میں ہونے والے اعلانات اور اردگرد سے خطرے کی بُو سونگھ کر گھروں کے مکین اپنے کواڑ بند کر کے بنا کچھ ساتھ لئے بھاگ گئے تھے۔ گلی میں کھلنے والے ایک دروازے سے کمرے کے اندر نئی رضائیوں، کمبلوں اور جہیز کا جلا ہوا دیگر سامان جھانک رہا تھا۔ بتایا گیا کہ چار بہوؤں کا جہیز ایک جگہ پر جمع تھا۔ اُن کا گھر زیر تعمیر تھا۔

حملہ آوروں نے مسیحی قبرستان میں جا کر قبروں پر موجود صلیب کے نشان توڑ دیے تھے۔

اسد ٹاؤن تک پہنچنے کے لئے ناہموار کچی سڑک کا راستہ جاتا ہے جہاں پر ہوپ فار لائٹ منسٹریز کا چرچ ہے۔ ایک چرچ سے صلیب گرانے کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کا منظر اِسی چرچ کا تھا۔ یہاں پر چند مسیحی گھرانے آباد ہیں۔ چرچ کے ساتھ تین گھروں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایک بچہ زمین پر بیٹھا تھا۔ آدھی روٹی کا ٹکڑا اُس کے ہاتھ میں تھا۔ اُس کے سامنے ایک گول پیالے میں چائے کے رنگ کا شوربا اور اُس میں تیرتے ہوئے خال خال چاول تیر رہے تھے جنہیں وہ پورے اطیمنان سے اپنے پیٹ میں ڈال رہا تھا۔ اِس گھر کے صحن میں گھر کا سارا سامان جلا پڑا تھا۔ گھر کے سربراہ بوٹا مسیح کے مطابق حملہ آور اُس کے گھر سے 20 ہزار روپے اور سونے کی بالیاں ساتھ لے گئے تھے۔

اِس چرچ کے ساتھ ایک شیعہ برادری کے فرد حسنین شاہ کا گھر تھا۔ حملہ کے وقت حسنین شاہ چرچ میں آیا اور حملہ آوروں کو بائبل مقدس کے نسخوں کو ہاتھ لگانے سے منع کیا۔ وہ تمام نسخے پورے احترام کے ساتھ اپنے ہمراہ اپنے گھر لے گیا تھا۔ لعل مسیح نے حسنین شاہ کے گھر جا کر اُس کا شکریہ ادا کیا تو وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر نم ناک آواز میں کہنے لگا؛ 'میں نوکر، میں نوکر'۔ یہاں پر موجود سمسون مسیح نے لعل مسیح کو بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آور آتشیں اسلحہ سے لیس تھے۔ اُن کے پاس کین تھے جن میں سے وہ پاؤڈر نکال کر پھینکتے جس کو آگ دکھاتے ہی ہر طرف آگ پھیل جاتی۔ لعل مسیح کو یاد آیا شانتی نگر اور دیگر جگہوں پر بھی ایسے ہی آتشیں مواد کا استعمال کیا گیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا ایسا بارودی مواد عام آ دمی کے پاس ہو سکتا ہے؟ کیا علاقہ بھر کے گرجا گھروں پر ایسا منظم حملہ بنا منصوبہ بندی کے ہو سکتا ہے؟

لعل مسیح کو یاد آیا ابھی کچھ روز قبل اُس نے 2010 میں شائع شدہ اردو لغت 'فرہنگ آصفیہ' میں بے سر و سامانی کا مطلب ڈھونڈا تو اُس میں اِس لفظ کے معنی 'کنگال، مفلس' درج تھے۔ اُسے لگا کہ اِس لفظ کے معنی کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا تھا۔ اُس نے سوچا بے سروسامانی کے معنی کو قاری تک بہتر طور پر پہنچانے کے لئے اگر اِس کے سامنے 'پاکستان میں مذہبی اقلیت ہونا' لکھ دیا جاتا تو قاری کو بے سروسامانی کی کیفیت کا بھی کما حقہ ادراک ہو جاتا۔

اہل حکم کا اعلان سُن کر کہ سرکار لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کر ے گی، لعل مسیح کو یاد آیا کہ سانحہ شانتی نگر کے بعد سالویشن چرچ کے پادری میجر یونس کی 9 سالہ بیٹی ایک مدت تک رات کو جوگر پہن کر سویا کرتی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ کیا معلوم کب بھاگنا پڑے تو کم از کم پاؤں میں جوتے تو ہوں۔ اُس نے دل ہی دل میں حکومت سے سوال کیا کہ کیا آپ نے ایسے نقصانات کا بھی اندازہ لگایا ہے یا نہیں؟ 14اگست 2023 کو یوم آزادی منانے والے بچے جنہوں نے پاکستان کے جھنڈوں والے لباس زیب تن کر ر کھے تھے، اُن کے اذہان میں کیا توڑ پھوڑ ہوئی ہے؟ اُن کی ریاست سے محبت پر کس طرح ضرب پڑی ہے؟ کیا ایسے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے گا یا نہیں؟ کیا جڑانوالہ کے لوگوں اور بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی بحالی کے اقدامات بھی حکومت کے زیر غور ہیں یا نہیں؟

نوجوان پاسٹر شکور عالم کے ہمراہ استیش، آصف، سہیل، اکرم، شہباز، جاوید، وشال، عاشر اور دیگر نوجوان ہر جانب بھاگ بھاگ کر خدمت کرتے نظر آ رہے تھے۔ باہر سے آنے والے مہمانوں اور اپنے گھروں کو لوٹنے والے رہائشیوں کے لئے اُن کے پاس پانی کی بوتلیں تھیں۔ علاوہ ازیں یہ نوجوان موجود رہائشیوں کے لئے کھانے کا بندوبست بھی کر رہے تھے۔

واپسی پر اُس کی بیٹی نے لعل مسیح سے سوال کیا' 'پاپا اب کیا ہو گا؟' تو لعل مسیح نے جواب دیا؛ 'بیٹا گذشتہ سالوں میں ریاست کی طرف سے کبھی قابل قدر اقدامات نہیں کئے گئے۔ مگر اِس بار مجرموں کو ضرور سزا ملے گی'۔

'جب آپ سومنات کے مندر کو زمیں بوس کرنے والے کو ہیرو کے طور پر پڑھائیں گے، جب بامیان میں دنیا بھر کی جانب سے درخواستوں کو رد کر کے بدھا کے مجسموں کو ہر صورت تباہ کرنے والے طالبان کو سومنات کا مندر توڑنے والے کی مانند ہیرو قرار دیں گے تو گرجا گھر کو آگ لگانے والے کو مجرم کیونکر کہہ سکتے ہیں؟' اُس کی بیٹی نے نہایت مدلل بات سے لعل مسیح کو چُپ کروا دیا۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد لعل مسیح نے کہا؛ 'دراصل ایسے واقعات کا تواتر سے ہونا ریاست کی جانب سے ایسے گروہوں کو اِس قسم کی سرگرمیاں کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ دوسری طرف کچھ مثبت اور حوصلہ افزا اشارے بھی موجود ہیں۔ مثلاً حال ہی میں سرگودھا میں ایسے کچھ واقعات ہوئے جن کو ابتدائی سطح پر ہی دبا دیا گیا ہے۔ گویا انتظامیہ کسی حد تک اِس معاملہ میں حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہے'۔ اُس سے بیٹی نے پھر پوچھا؛ 'مگر پاپا اِس واقعہ میں آپ کون سی مثبت بات دیکھ رہے ہیں؟' لعل مسیح پھر سوچ میں پڑ گیا، پھر جیسے کوئی کرن اُس کے ہاتھ میں آ گئی ہو، اُس نے کہا؛ 'بیٹا ایک اشارہ تو ہے'، 'وہ کیا پاپا؟'، 'وہ یہ ہے کہ جس جماعت کے لوگ گرفتار ہوئے ہیں اگر اُن کی جانب سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے خلاف مظاہر ے نہ کئے جائیں تو جان لو کہ انہیں سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر میرے خیال میں اِس بار پچھلی مرتبہ جیسا نہیں ہو گا۔ اِس دفعہ مجرمان کو سزا ملنے کی موہوم سے امید اِس اشارے میں نظر آ رہی ہے'۔

جب وہ گھر پہنچے تو ٹی وی پر نگران وزیر اعظم موجود تھے جو فرما ر ہے تھے؛ 'یہ جتھے ہمارا چہرہ نہیں ہیں'۔ یہ سُن کر لعل مسیح نے ٹی وی کی جانب منہ کر کے انہیں مخاطب کر کے کہا؛ 'معاف کیجئے وزیر اعظم صاحب یہی ہمارا چہرہ ہیں اور جب تلک اِن کو تلف نہیں کیا جاتا یہی ہمارا چہرہ رہیں گے۔ محلہ میں ایک بد معاش ہوتا ہے تو پورا محلہ اُسی کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے'۔ دوسری خبر میں بتایا گیا کہ نگران وزیر اعلیٰ نے علماء سے ملاقات کر کے اُن کی ستائش کی کہ اُن کے کردار کے باعث کوئی مالی نقصان نہیں ہوا۔ لعل مسیح کو یاد آیا کہ ایک واقعہ میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں نے پولیو کے قطرے پلانے والی 3 ہیلتھ ورکرز کو گاڑی سے نکال کر ہلاک کر دیا تھا۔ اُن کے ہمراہ ایک بچی بھی تھی جسے انہوں نے زندہ چھوڑ دیا۔ دہشت گردوں کے ہم خیال مذہبی رہنما یہ کہتے ہوئے پائے گئے؛ 'دیکھ لیں انہوں نے بچی کو ہاتھ نہیں لگایا'۔

لعل مسیح کو یاد آیا کہ 19 دسمبر2017 کو سینیٹ کے بند کمرہ اجلاس میں ریاست کے ایک ذمہ دار اہلکار نے جڑانوالہ میں حملہ کے ذمہ دار گروہ کی تخلیق کا اعتراف کیا تھا۔ اُس نے سوچا اگر غلطی مان لی جائے تو نتائج کی سنگینی کے اعتبار سے یہ طالبان جیسی تراش سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی۔ 1997 میں جب اگلے روز وہ شانتی نگر گیا تو آگ تب تک جل رہی تھی۔ سردی تھی اور لوگ اپنے جلے ہوئے گھروں کی آگ تاپ رہے تھے۔ گویا وہ اپنی بربادی کی راکھ سے بھی اپنی بحالی کے امکان پیدا کرنے کا حوصلہ سلامت رکھے ہوئے تھے۔ یہ حوصلہ تو 2015 میں کرائسٹ چرچ یوحنا آباد میں بھی مسیحیوں کا قابل دید تھا جب وہ بم دھماکے میں شہید اور زخمی ہونے والے لوگوں کے درمیان کھڑے رو رہے تھے اور بلند آواز میں 'رب خداوند بادشاہ ہے' گا رہے تھے۔ جڑانوالہ میں بھی فائر برگیڈ کے آگ بجھانے کے باوجود دھواں اٹھ رہا تھا، ابھی بھی آگ زندہ تھی۔ اُسے لگا کہ شانتی نگر میں لگائی گئی آگ آج بھی سلگ رہی تھی۔

عطاء الرحمٰن سمن سماجی کارکن ہیں اور National Commission for Justice & Peace کے ساتھ وابستہ ہیں۔