Get Alerts

جدید اسلحے اور ٹریننگ سے کچے کے ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا سکتا ہے

ہماری فوج اور رینجرز پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں تو ان کو پنجاب پولیس کے دستوں کے ساتھ تعینات کرنا چاہیے۔ اس سے پنجاب پولیس کی آپریشنل صلاحیتوں میں نکھار آئے گا۔

جدید اسلحے اور ٹریننگ سے کچے کے ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا سکتا ہے

نقطہ دان اس بات سے متفق نظر آئیں گے کہ ریاست چاہے کتنی بھی تباہ حال اور کمزور کیوں نہ ہو وہ اس میں اٹھنے والی ریاست مخالف تحریکوں، انتشاری اور دہشت گرد گروہوں سے طاقتور ہوتی ہے۔ اس کے پاس منظم قوت ہوتی ہے۔ جدید اسلحہ و بارود اس کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ کوئی بھی ابھرتی ہوئی لاقانونیت اس کے لیے مسائل تو پیدا کر سکتی ہے لیکن جب ریاست اس کو کچلنے کا فیصلہ کر لے تو وہ اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ لیکن جب طاقت کا یہ عالم ہو کہ آپ پہلی مسلم عالمی ایٹمی قوت ہوں اور آپ کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہو اور آپ کی ہوائی فوج کی پیشہ ورانہ قابلیت یہ کہ وہ اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔ اور آج 77 سال کی کوششوں اور ہمیں دولخت کرنے کے باوجود ہمارے سے کئی گنا بڑی فوجی طاقت کا حامل ہمارا پڑوسی ملک ہمارے خطے میں اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر سکا تو ہمیں اپنی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔

اس کے بعد جب بات ملکی سالمیت اور سکیورٹی کو درپیش چیلنجوں کی آتی ہے کہ ایک وہ وقت تھا کہ ہمارے ہر بڑے شہر میں روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے ہوتے تھے اور یہ کہنا بالکل درست تھا کہ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے لیکن پھر ہماری بہادر افواج نے اس پر آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور اس ناسور کو شکست دی۔ اس ساری تمہید کا مقصد حالیہ دنوں میں پنجاب کے اضلاع راجن پور اور رحیم یار خان سے منسلک صوبہ سندھ کے بارڈر پر واقع کچے کے علاقے میں ہونے والی پنجاب کانسٹیبلری، پنجاب پولیس اور ایلیٹ کے جوانوں کی شہادتیں ہیں۔ اس علاقے میں ہمیں ہماری ریاست بالکل بے بس اور کمزور نظر آتی ہے۔ اس کی چیدہ چیدہ وجوہات پر ہم روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

ریاست طاقت کا استعارہ ہوتی ہے لیکن یہاں پر بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ ریاستی مشینری کے پاس وہی روایتی ہتھیار جو کہ وسطی پنجاب اور دوسرے علاقوں میں جہاں شر پسند عناصر کے پاس اتنی زیادہ جدید ہتھیار نہیں ہوتے، مؤثر ہیں۔ لیکن کچے کے ڈاکوؤں کے پاس جی تھری جو کہ ہماری فوج اور رینجرز استعمال کرتے ہیں، کے ساتھ مشین گنوں اور راکٹ لانچرز کے ساتھ لیس ہیں۔ ایسے میں یہ تصور کرنا کہ ہماری ریاست ان روایتی ہتھیاروں سے ان جدید اسلحہ سے لیس ڈاکوؤں سے کیسے جیت سکتی ہے۔

دوسرا واضح فرق پنجاب پولیس کی ٹریننگ کا ہے جو کہ قطعی طور پر بھی اس معیار کی نہیں ہے کہ میدان جنگ میں واضح فرق پیدا کر سکیں۔ چونکہ کچے کے علاقے میں دوبدو مقابلہ نہیں ہوتا، زیادہ تر گھات لگا کر حملہ کیا جاتا ہے جس کے لیے پنجاب کانسٹیبلری یا پنجاب پولیس کے نوجوان تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔ ہاں ایلیٹ فورس کی تربیت اس معیار کی ضرور ہے کہ وہ کسی بھی ایسے حملے کو ناصرف پسپا کر سکتے ہیں بلکہ حملہ آور کو بھاری نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کو جد ید اسلحہ فراہم کیا جا سکے۔ تیسری بڑی وجہ انٹیلی جنس کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ انٹیلی جنس کسی آپریشن کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اور چوتھا بڑا عنصر علاقے سے عدم واقفیت بھی آپریشن کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

پنجاب کانسٹیبلری کے جو بھی جوان اس علاقے میں جاتے ہیں وہ زبان اور علاقے کے خدوخال سے نا واقف ہوتے ہیں اور یہ ناواقفیت دوران مقابلہ واضح فرق پیدا کرتی ہے۔ اعلیٰ حکام سے درخواست ہے کہ حالیہ دنوں میں نوجوانوں کی شہادتوں اور ڈاکوؤں کی ہلاکتوں کے تناسب پر غور کریں تو ہم با دل ناخواستہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہماری ریاست کمزوری دکھا رہی ہے۔ ہم نے جب اس ناسور کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اپنے جوانوں کی تربیت عالمی معیار کی کرنی ہو گی۔ اس علاقے میں تعیناتی سے پہلے ان کو بیسک ایلیٹ کورس سے گزارنا چاہیے۔ ان کو جدید اسلحہ سے لیس کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس قسم کے جدید ہتھیاروں کے خلاف احتیاطی و دفاعی تدابیر سے روشناس کروانا ہوگا۔ ان کو بلٹ پروف جیکٹ اور بکتر بند گاڑیوں سے بھی لیس کرنا چاہیے۔

چونکہ ہماری فوج اور رینجرز پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں تو ان کو پنجاب پولیس کے دستوں کے ساتھ تعینات کرنا چاہیے۔ اس سے پنجاب پولیس کی آپریشنل صلاحیتوں میں نکھار آئے گا۔ یہ سب اقدام ایک طرف، سب سے اہم اور ضروری قدم اس سلسلے میں کچے کے ڈاکوؤں کو اس جدید اسلحہ کی ترسیل روکنی ہو گی جو کہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں اور بہاولپور کور کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔

اس کے علاوہ اس ناسور کے جڑ سے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کر کے ان جرائم پیشہ افراد کو قومی دھارے میں لانا ہو گا اور ان کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف عمل کرنا ہوگا۔ ہماری عوام، افواج اور لاء انفورسمنٹ اداروں نے بہت نقصان اٹھایا ہے، اب اس کا قلع قمع کرنے کا وقت ہے۔ اگر فوری طور پر مناسب اقدام نہ اٹھائے گئے تو یہ ناسور دن بدن پھیلتا جائے گا اور ریاست اسی طرح لاشیں اٹھاتی رہے گی۔ صاحب اقتدار غور کریں اور ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ تاریخ ان کو اس ناسور کے سہولت کاروں کے طور پر یاد رکھے گی۔

عدیل نواز نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔