انتخابات میں فراڈ طریقے سلیکشن اور حکومت سازی کے بعد عمران خان یہ راگ الاپتے رہے ہیں کہ میں کسی کو این آر نہیں دوں گا۔ جب بھی حکومت کی بدترین کارگردگی کی بات کی گئی، عمران خان کو اُن کے پرانے بلند وبانگ دعوے اور پُرفریب نعرے یاد دلائے گئے، اور جب سوال کیا گیا کہ خان صاحب آپ تو کہتے تھے خودکُشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، بیرونی ممالک سے قرضوں کی بھیک نہیں مانگوں گا، ملک سے ہی اربوں کا ٹیکس جمع کر کے دکھاؤں گا، ایک کروڑ نوکریاں ہوں گی، پچاس لاکھ گھر ہوں گے، ہر فرد خوشحال ہو گا، دو نہیں ایک پاکستان ہو گا۔ خان صاحب! کہاں ہے وہ نیا پاکستان؟ تو خان صاحب کا جواب ایک منتر کی صورت میں ایک ہی ہوتا تھا، کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔
این آر او کے منتر کے ساتھ ساتھ عمران خان قوم کو یہ بھی بتاتے رہے کہ اُن کی لغت میں بڑے لیڈر کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ یوٹرن لیتا ہے، لہذا آنے والے دنوں میں وہ اپنی کہی ہوئی بات سے مکُر جاتے ہیں، یا اپنے موقف سے گولاٹی مار کر ایک نئی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں، تو اپنے دانتوں میں انگلیاں دبا کر قوم حیرت کا اظہار نہ کرے، اور نہ ہی لعنت ملامت کی جائے۔ بلکہ اس کو بڑے لیڈر کی نشانی سمجھ کر گول دائروں میں سفر جاری رکھے۔ جہاں سے چلے تھے، وہی پہنچنے پر کپتان کا شکر ادا کرے، اور گانا گاتے رہیں۔ بنے گا نیا پاکستان۔
یوٹرن کے عظیم فلسفے کو مشعل راہ بناتے ہوئے خان صاحب نیشنل اکاؤنٹیبیلیٹی ترمیمی آرڈینینس 2019 لے کر آئے ہیں۔ یہ خبر یقیناً سلیکیٹیڈ وزیراعظم کے دوستوں کے لئے خوشخبری ہے، جن پر نیب کیسز چل رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں صدارتی محل کے چور دروازے سے آنے والا یہ آرڈیننس سلیکیٹیڈ وزیراعظم کے دوستوں کو نیب سے استثنیٰ دلوا رہا ہے۔ البتہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے اس آرڈیننس کو یکسر مسترد کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس کو پانامہ سے بھی بڑا کرپشن کا سکینڈل قرار دیا ہے، جس کے ذریعے عمران خان نے اپنے نیب زدہ دوستوں، ساتھیوں اور عزیزوں کی مشکلات آسان بنائی ہیں۔ اور اُن کو نیب کے چنگل سے آزاد کروایا ہے۔ اس آرڈیننس سے بڑا ریلیف مالم جبہ اور بی آر ٹی میں ملوث کرپٹ عناصر کو ملنے جارہا ہے۔
احتساب اب صرف اپوزیشن کے سیاست دانوں کا ہوگا، جو کہ پہلے بھی ہو رہا تھا، پہلے اس میں افواج اور عدلیہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا اب سرکاری ملازمین اور بزنس مینوں کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ یہ ہے نئے پاکستان میں نئی سیاسی ڈویلپمنٹ۔ اس سارے عمل سے سیاست مزید کنٹرولڈ ہو گی اور پارلیمنٹ مزید کمزور۔ جمہوریت پر ایک اور کاری ضرب لگانے کا تاج کپتان کے سر پر ہے۔
اس سارے عمل میں ایک بڑی خرابی یا بددیانتی یہ ہے کہ نیب قوانین میں تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں لائی گئی، اگر اپوزیشن کی طرح حکومت اس بات پر قائل ہوئی تھی کہ نیب کالا قانون ہے، اور جیسا کہ سابق صدر زرداری نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ نیب اور معیشیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اور اب حکومت نے بھی اس موقف کو مان لیا تھا تو پھر اُسے جمہوری ضابطوں اور پارلیمانی روایات کے تحت پارلیمنٹ کے ذریعے اور اپوزیشن کے اعتماد کے ساتھ اس میں ترمیم لانا چاہیے تھی۔ مگر فاشسٹ ذہنیت نے ایک بار پھر فاشسٹ طرزعمل اختیار کیا۔ پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا گیا اور صدارتی محل کے چور دروازے سے نیب آرڈیننس کو لایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے ٹویٹ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 'حالیہ نیب آرڈیننس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت (سابق) صدر زرداری سے اس بات پر متفق ہے کہ نیب اور معیشت اکھٹے نہیں چل سکتے۔
واضح متعصبانہ کوششیں کرنے کے بجائے حکومت کو حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے اور انسدادِ بدعنوانی کے قوانین کو مضبوط کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔' چیئرمین بلاول کا مزید کہنا تھا کہ ’اپنا (اصل) کام کیجیے، قانون سازی کیجیے۔ انسدادِ بدعنوانی کے قوانین کو مضبوط کریں اور اس ڈھونگ کو ختم کریں۔‘ چئیرمین بلاول کے نزدیک یہ ایک ڈھونگ ہے، اور چونکہ پارلیمانی روایات اور پارلیمنٹ کا فورم استعمال نہیں ہوا، لہذا اس کے پیچھے حکومتی بدنیتی اور مقصد نیب زدہ ساتھیوں کو بچانا ہے۔
حتیٰ کہ اس آرڈیننس کے لئے کابینہ سے بھی منظوری گردشی عمل یعنی سرکولیشن کے ذریعے لی گئی۔کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے وفاقی کابینہ کے اراکین کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ اس سمری کی منظوری گردشی عمل کے ذریعے لی جائے۔
مراسلے میں بیان کیا گیا ہے: ’گردشی عمل کے تحت منظوری کے لیے اگر کوئی چیز وزرا کو بھیجی جائے اور اگر کوئی وزیر اس کا جواب نہ دے تو رولز آف بزنس 1973کے تحت اس کو مذکورہ وزیر کی طرف سے ہاں تصور کیا جائے گا۔‘
اسی دوران خبر یہ بھی ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا گیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت نیب ترمیمی آرڈیننس کو فوری طور پر معطل کرنے کا حکم دے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 25کے خلاف ہے جس کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور نیب ترمیمی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس وزرا اور سرکار ی افسران کی کرپشن کوتحفظ دینے کی کوشش ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کو پہلے سے ہی نیب قوانین اور اس کے سیاسی کردار پر سخت تحفظات ہیں۔ اب تک اس متنازعہ ادارے کو سیاسی بلیک میلنگ اور سیاست کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ قانونی آئینی ماہرین بھی اس آرڈیننس کو آئین کی شق نمبر 35 کے صریحا خلاف قرار دے رہے ہیں۔ یہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں جس میں ایک قانون کے تحت دو شہریوں کو دو مختلف انداز میں ڈیل کیا جائے گا۔ ویسے تو یہ عمل پہلے بھی جاری اس طرح ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ڈیل کرنے کا انداز مختلف ہے، اور حکومتی رہنماؤں اور دوستوں کے ساتھ ڈیل مختلف انداز میں کیا جارہا ہے۔ حکومتی کیسز نیب کے سرد خانوں میں ہیں جبکہ اپوزیشن رہنما نیب کی کال کوٹھریوں میں پڑے ہیں۔
اب جبکہ ملک کو معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے سیاسی استحکام کی ضرورت تھی مگراب اس عمرانی یوٹرن اور مدر آف این آر او کی حماقت سے پاکستان میں ایک نیا آئینی بحران جنم لے چکا ہے، اب تک حکومت کی پارلیمانی کارکردگی صفر ہے اور ہر عمل متنازع ہے۔ یہ آرڈیننس پاکستان کی سیاست کو مزید غیر مستحکم، مزید تقسیم اور بے یقینی کا شکار کرنے جا رہا ہے۔ اس سے یقینی طور پر حکومت بھی کمزور ہو گی اور اس کا زوال بھی قریب آئے گا۔